کراچی: وی بی ایم پی کیمپ میں لاپتہ حمید زہری کی اہلیہ کی آمد، بازیابی کا مطالبہ

0
110

پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارلحکومت کراچی میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے لواحقین کی بھوک ہڑتالی کیمپ جاری ہے جسے اب تک 4923 دن ہوگئے ہیں۔

بلوچستان بار کے جنرل سکریٹری میر چنگیز بلوچ نے ساتھیوں کے ہمراہ اور شرافی ملیر کے سماجی رہنما سلیم شہزاد نے کیمپ آکرلواحقین سے اظہارِ یکجہتی کی۔

کراچی سے جبری لاپتہ عبدالحمید زہری کی فیملی بھی احتجاجی کیمپ میں موجود رہے۔

عبدالحمید زہری کی بیوی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ اسکے شوہر کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے سندھ پولیس کی مدد سے اٹھا کر جبری لاپتہ کیا۔ عبدالحمید کی بازیابی کیلئے انہوں نے احتجاج کے تمام تر طریقہ کار اپنائے لیکن اب تک انہیں انکی کوئی خیر خبر نہیں ملی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں ملکی عدالتوں میں پیش کرکے قرار واقعی سزا دی جائے، اگر اس نے کوئی جرم نہیں کیا ہے تو انہیں رہا کیا جائے۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم کو بلوچستان کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہونا ہے اور فوجی آپریشن کے خلاف ہر سطح پر اپنا ردعمل دکھانا ہے خاموش بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار نہیں کرنا ہے، یہی لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا ہے، پیسے اور مفادات کے چکر میں اپنا ایمان بیچ چکے ہیں، انکی آنکھیں بینور، کانیں سننے کے قابل نہیں ہیں، احساسات دم توڑ چکی ہیں، ضمیر مر چکی ہے۔ بلوچیت سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے،اپنوں کے غم بھول چکے ہیں، قبلہ تبدیل ہو چکا ہے،اپنا ضمیر کا سودا کر کے ناچتے ہو جو ہڈیاں وہ پھینکتے ہیں اس کے لئے گرتے ہو اتنا مت گرو کہ اپنوں کی نظروں میں غیر بن جاؤ۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان آپریشن فورسز کی سفاکیت پر انسانی حقوق کے علمبردار، سول سوسائٹی، بین الاقوامی میڈیا کی خاموشی معنی خیز ہے اگر میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے اسی طرح خاموش رہے تو یہ ایک المیہ ہو گا اور ان اداروں کے روح مسخ ہو جائیں گے، لیڈروں اور تنظیموں کے انتشار اور نااتفاقی قومی تاوان کا پیش خیمہ ہو گا اب وقت آ گیا ہے لیڈر شپ اپنے ذاتی پسند، ناپسند، ہیروازم، جمعداری، شخصیت پرستی اور انانیت سے بالاتر ہو کر قومی مفاد میں سوچیں، اسوقت پاکستانی فوج نے بلوچستان کے گلی گلی نگر نگر اور ہر پہاڑی چوٹی پر فوجی آپریشن جاری ہے مگر بلوچستان کے لیڈر دانشور اور سیاسی جہدکار ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں، صرف فیس بک اور سوشل میڈیا میں اپنے آقاؤں کی ترجمانی میں لگے ہوئے ہیں، کیا بنے گا اس قوم کا جس کے معصوم بچے، خواتین، اور نوجوان بمبوں اور توپوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here