بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی کی جانب سے ان کے سربراہ کمانڈر گلزار امام کی پاکستانی فوج کے حراست میں ہونے کے بیان کے بعد بعض عسکریت پسندی کے رجحانات پر کام کرنے والے لوگ اسے حکومت پاکستان کے لیے ایک اہم پیشرفت قرار دہے رہے ہیں جبکہ بعض کے نزدیک یہ غیر معمولی کامیابی ہے ۔
پاکستان میں عسکریت پسندی کے رجحانات پر کام کرنے والے ادارے پاکستان اسنٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا گلزار امام کی گرفتاری کو حکومت پاکستان کے لیے ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہیں۔
بقول عامر رانا کے، بی آر اے اور یو بی اے کے دھڑوں کے ساتھ مل کر گلزار امام نے بلوچستان نیشنل آرمی کی بنیاد رکھی اور اس کی کارروائیوں کا دائرہ کار لاہور اور جنوبی پنجاب تک پھیلا دیا تھا۔
عامر رانا کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان سے اب بلوچ عسکریت پسندوں کو نکال رہے ہیں، اب ان کے پاس دو آپشنز ہیں یا تو ایران چلے جائیں یا پاکستان میں رہیں تاہم ایران کی شرائط بہت سخت ہیں۔
برطانیہ میں موجود اسلامک تھیالوجی آف کاؤنٹر ٹیررازم کے ڈائریکٹر فاران جعفری کہتے ہیں کہ یہ کامیابی اور پیشرفت تو ہے لیکن اسے کوئی غیر معمولی کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اُن کے مطابق ’گلزار امام نے اپنے وفاداروں کے ساتھ یہ گروپ بنایا جس نے بعض کارروائیاں بھی کیں لیکن یہ کوئی بڑا گروپ نہیں۔‘
’بلوچ عسکریت پسند تحریک اس وقت بنیادی سطح تک ہے، اگر دو چار کمانڈر اٹھا لیے جائیں یا اُنھیں مار دیا جائے تو اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا، جیسے اسلم عرف اچھو کو جب ہلاک کیا گیا تو اس کو بڑی پیشرفت قرار دیا گیا لیکن ہم نے دیکھا کہ اس سے کوئی خاطر خواہ فرق نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے جو عکسریت پسند ہیں، ان کا کچھ وقتی طور پر مورال کم ہوا ہو لیکن بعد میں وہ ایک نئی ہمت و قوت سے نظر آتے ہیں۔‘
اُنھوں نے کہا کہ اگر گلزار امام حکومت پاکستان کو کوئی معلومات فراہم کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر چھاپے مارے جاتے ہیں یا کچھ لوگ ہلاک ہوتے ہیں تو باقی لوگ کسی اور گروپ میں شامل ہو جائیں گے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ہی صف میں سے کوئی اور کمانڈر چن لیں۔
پاکستان کے ادارے غیر سرکاری طور پر گلزار امام کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی بعض افراد بشمول صحافی اس کا تذکرہ کرتے آئے ہیں لیکن باضابطہ گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی۔
تجزیہ کار عامر رانا کہتے ہیں کہ طریقہ کار کے مطابق پاکستان کے کئی ادارے تحقیقات کرتے ہیں، اس کے بعد ہی اُنھیں پولیس یا سی ٹی ڈی کے حوالے کیا جاتا ہے۔
کوئٹہ میں تعینات ایک اعلیٰ انٹیلی جنس افسر کا کہناہے کہ بشیر زیب اور علیحدگی پسند رہنما اللہ نذر بلوچ کے بعد گلزار امام اس وقت بلوچستان کی سطح پر جاری شورش کے اہم کمانڈر سمجھے جاتے تھے۔
ان کے بقول گلزار امام کی گرفتاری کا حال ہی میں تشکیل پانے والے بی این اے کے ساتھ ساتھ براس اوردیگر تنظیموں پربھی گہرا اثر پڑے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ رواں برس دو فروری کو پنجگور اور نوشکی میں فرنٹیئر کور (ایف سی) ہیڈ کوارٹرز پر بی ایل اے کے حملوں کے دوران جو علیحدگی پسند مارے گئے ان میں گلزار امام کے بھائی ناصر امام بھی شامل تھے۔
البتہ سیکیورٹی ماہرین اوربلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے وابستہ حلقوں کاکہناہے کہ گلزار امام کی گرفتاری سے بلوچ مسلح تحریک پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔
سنگاپور میں قائم ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز نامی سیکیورٹی تھنک ٹینک سے وابستہ محقق عبدالباسط کہتے ہیں کہ مسلح تنظیموں کے لیے اہم کمانڈرز کی ہلاکت یا گرفتاریاں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ گلزار امام کی گرفتاری سے بلوچستان میں بی این اے کے نیٹ ورک کو تو دھچکہ لگا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس سے بلوچ علیحدگی پسند تحریک کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچے گا۔
اُنہوں نے 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کے ماسٹر مائنڈ اسلم بلوچ کی افغانستان کے شہر قندھار میں ہلاکت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے کا دھڑا اسلم بلوچ کے جانشین بشیر زیب کی قیادت میں مزید منظم ہوا۔