فہیم بلوچ کی جبری گمشدگی جمہوری حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے، پریس کانفرنس

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

علم وادب پبلشرز کے مینیجر لالہ فہیم بلوچ کی جبری گمشدگی نام نہاد جمہوری حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی جمہوریت کا دعویٰ کرتی ہے جبکہ دوسری جانب کتاب دوستوں، پبلشرز اور صحافیوں کو بھی اغوا کرنے میں ملوث ہیں۔ سندھ اور وفاقی حکومتیں کٹھ پتلی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومتوں کو پس پردہ نہ نظر آنے والی قوتیں چلارہی ہیں۔

یہ بات کراچی کے علاقے اردو بازار سے لاپتہ پبلشر اور صحافی لالہ فہیم بلوچ کی کزن ام حبیبہ بلوچ ایڈوکیٹ، ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے کو چیئر پرسن، اسد اقبال بٹ، قاضی خضر، پائلر کے سربراہ کرامت علی اور محمد ناصر نے بدھ کے روز کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ فہیم کی رہائی کے لئے انہوں نے سندھ ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا جس پر سندھ ہائی کورٹ میں ان کی گمشدگی سے متعلق درخواست کی سماعت عدالت نے محکمہ داخلہ سندھ، آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز و دیگر کو 12 ستمبر کیلیے نوٹس جاری کردیے۔ امید ہے کہ عدالت سے انہیں انصاف ملے گا۔

انسانی حقوق، سیاسی اور لواحقین نے کہا کہ سندھ پولیس اور وفاقی ادارے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی طرف سے غیر قانونی غیر آئینی طور پر شہریوں کو اغوا کرنا معمول بن چکا ہے اب دن دھاڑے لالہ فہیم جیسے ادب نواز فرد کا اغوا ایک انتہائی ظالمانہ عمل ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس کھلی غنڈہ گردی کی مذمت کرتے ہیں اور لالہ فہیم کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 25 سالہ لالہ فہیم کا بنیادی تعلق بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے وشبود سے ہے۔ وہ علم و ادب پبلشنگ ہاؤس کے مینیجر ہیں جبکہ صدائے بلوچستان ڈاٹ کم اور سہ ماہی گدان پنجگور کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ وہ ایک طویل عرصے سے نیول کالونی کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ دوستوں اور عزیزوں میں انہیں لالا فہیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

نامور پبلشر اور صحافی لالہ فہیم بلوچ کو کراچی کے علاقے اردو بازار سے 26 اگست کی شام ساڑھے آٹھ بجے سول وردی میں ملبوس تین لوگ تین کمانڈوز کے ساتھ لالا فہیم کی بک شاپ، علم و ادب پبلشرز اینڈ بک سیلرز واقع بک مال، تھرڈ فلور اردو بازار میں آئے، عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے لالا فہیم سے ایک کتاب کا معلوم کیا، اس کے انکار پر وہ چلے گئے مگر کچھ دیر بعد واپس آئے اور اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور اسے اپنے ساتھ لے کر، نیچے موجود پولیس وین میں بٹھا کر لے گئے جس کے بعد اس کا کوئی اتا پتا نہیں۔

اس واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آگئی۔فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سندھ پولیس اور کچھ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار انہیں علم وادب کے دفتر سے لے جارہے ہیں۔ اس فوٹیج سے یہ بات واضع ہوگئی ہیں کہ لالہ فہیم کے اغوا میں سندھ پولیس کی معاونت سے تھی۔ اور سندھ پولیس برائے راست اس واقعہ میں ملوث ہیں۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرکا ء کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے چار روز بعد 29 اگست 2022 کو لالہ فہیم بلوچ کے اغوا نما واقعہ کی ایف آئی آر پریڈی تھانے میں لاپتہ فہیم بلوچ کی میں (کزن ام حبیبہ ایڈوکیٹ) کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی درج کرلی گئی۔

لالا فہیم نے کچھ دوستوں کی مدد سے 2016 میں علم و ادب بک سیلرز کے نام سے کتابوں کی ترسیل کا کام شروع کیا، اور کچھ سال پہلے ہی پبلشنگ بھی شروع کی۔ اس دوران انہوں نے اپنے ادارے سے سو سے زیادہ علمی و ادبی کتابیں شائع کیں۔علم و ادب پبلشرز زیادہ تر ادبی کتابیں شائع کرتا ہے۔ جس میں نوے فیصد سے زیادہ اردو میں اور چند ایک بلوچی میں بھی شامل ہیں۔ یہ کتابیں بازار میں عام طور پر دستیاب ہیں۔ ان میں کوئی ایسا مواد نہیں پایا جاتا جسے ماورائے آئین یا ریاست مخالف کہا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ فہیم کی رہائی کے لئے ہم نے سندھ ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے۔ جس کی سماعت بھی ہورہی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت سے ہمیں انصاف ملے گا۔

Share This Article
Leave a Comment