محکمہ جیل نے آرمی کورپس فائیو کی جانب سے لیاری گینگ وار سرغنہ وکالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر جان بلوچ کو 3سال بعد واپس کیے جانے پر انہیں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا۔
میڈیارپورٹوں کے مطابق لیاری کے گینگسٹر انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر التوا تقریباً 62 کیسز میں نامزد ہیں جو مستقل جیل حکام کی جانب سے انہیں پیش نہ کیے جانے پر ٹرائلز میں تاخیر کی وجہ سے ان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کررہی تھی۔
اپریل 2017 کو آرمی نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے عزیر بلوچ کو اپنی ’جاسوسی’ اور ’حساس معلومات غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کو دینے‘ پر کسٹڈی میں لیا ہے۔
محکمہ جیل نے انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کو جون 2018 میں بتایا تھا کہ عزیر بلوچ کو 11 اپریل 2017 کو سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دھماکا خیز مواد اور اسلحہ کے کیس میں تحقیقات کے لیے حوالے فوج کے حوالے کیا تھا۔
پیر کے روز جیل حکام نے عزیر بلوچ کو اے ٹی سی-سترہ کے سامنے ان کے خلاف ارشد پپو قتل کیس میں ٹرائل کے لیے پیش کیا۔
جج نے عزیر بلوچ کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ 22 اپریل مقرر کی اور تحقیقاتی افسر کو ہدایت کی کہ انہیں اگلی تاریخ پر پیش کریں۔
خصوصی عوامی استغاثہ ساجد محبوب شیخ نے میڈیا کو بتایا کہ عزیر بلوچ پر موجودہ کیس میں پہلے فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی تھی کیونکہ ان کی کسٹڈی فوج کو دے دی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ کیس میں 7 شریک ملزمان ذاکر بلوچ، زبیر بلوچ، جاوید بلوچ، محمد یوسف، چاند خان نیازی، عبدالرحمٰن، شاہ جہان بلوچ اور اکرم بلوچ پر پہلے ہی فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔
استغاثہ کے مطابق ارشد پپو، ان کے بھائی، ساتھی اور 10 سالہ بیٹا ڈیفنس ہاو¿سنگ اتھارٹی میں 16 مارچ 2013 کی رات کو ایک پارٹی میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
10 سالہ بچہ آزھی رات کو واپس آیا اور اس نے اپنی والدہ کو بتایا کہ متعدد گاڑیوں میں تقریباً 20کے قریب افراد ڈی ایچ اے میں فلیٹ پر آئے اور ان کے والد سمیت دیگر افراد کو لے گئے۔
کالاکوٹ پولیس تھانے میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر متعلقہ دفعات پر ایک کیس درج کیا گیا تھا۔
ارشد پپو 60 کے قریب کیسز میں نامزد تھے تاہم ان پر کسی بھی کیس میں فرد جرم عائد نہیں ہوئی تھی کیونکہ مرکزی گواہان ان کے خلاف بیان دینے یا تو عدالت نہیں آئے تھے یا اغوا کرلیے گئے تھے۔
انہیں فروری 2012 میں بلوچستان کے جیل سے رہائی ملی تھی جو ان کے خلاف ٹرانسپورٹر فیض محمد کے قتل کا ممکنہ طور پر آخری کیس تھا اور فیض محمد عزیر بلوچ کے والد تھے۔