لاپتہ افراد کے لواحقین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

پاکستان میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کرنے پر انہیں دھمکیوں، اور گالی گلوچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات انہیں احتجاج کے دوران تشدد اور گرفتاری کا سامنا کرنا بھی پڑتا ہے۔ یہ انکشاف ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعرات کو ایک نئی رپورٹ میں کیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے رپورٹ میں کہا گیا کہ رواں سال تیرہ جون کو سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی اور وائس فار مسنگ پرسنز کے تحت دو بلوچ طلباء دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ کی گمشدگی کے خلاف سندھ اسمبلی کے سامنے احتجاج کرنے پر بلوچ خواتین پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سندھ پولیس نے خواتین کو تھپڑ مارے۔ اور نوجوان طالب علموں پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوگئے۔

https://twitter.com/amnestysasia/status/1557593210960084992?t=af0ANOCctrAnQ_4YGnjh-A&s=19

ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بیان کردہ واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پولیس اور انٹیلی جنس ادارے پرامن احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے غیر ضروری طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ عمل بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین اور معیارات کی خلاف ورزی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو حکومت کے منہ پر طمانچہ قرار دیا اور کہا کہ رپورٹ حقائق پر مبنی ہے۔

آمنہ بلوچ نے کہا کہ حال ہی میں سندھ حکومت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی سے رابطہ کرکے انہیں مذاکرات کی دعوت دی اور اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر سندھ کے سینئر وزیر میر شبیر بجارانی نے لواحقین سے ملاقات بھی کی تھی۔ اس ملاقات میں انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ جلد تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائیگا۔ تاہم ابھی تک کسی کی رہائی نہیں ہوسکی۔ آمنہ بلوچ نے کہا کہ کراچی سے لاپتہ افراد کی بازیابی کی جدوجہد ایک پرامن اور جمہوری تحریک ہے۔ حکومت اور ادارے قانون کا احترام کرکے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کریں۔

آمنہ بلوچ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جمہوری جدوجہد کا احترام کیا جائے۔ اور قانون و آئین کے دائرے میں رہ کر سندھ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائیں۔اور ہماری جمہوری اور قانونی تحریک کو دبانے کے لئے طاقت کا استعمال نہ کریں۔

آمنہ بلوچ کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ماورائے قانون کے مرتکب ہورہے ہیں۔ جس سے سندھ میں بھی انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ اس وقت بے شمار افراد سی ٹی ڈی اور وفاقی اداروں کے قید میں ہیں۔ وہ بے گناہ ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment