حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دے رہے ہیں،اس کے بعد احتجاجی عمل کو وسعت دینگے، اگر طاقت کا استعمال کیا گیا تو بھرپور مزاحمت کرینگے، آمنہ بلوچ کی پریس کانفرنس
کراچی میں جاری لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے احتجاجی کیمپ کو وسعت دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اور حکومت کو تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ایک ہفتے کی مہلت دی اور کہا کہ ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد احتجاج کو وسیع کرنے کا فیصلہ کیا جائیگا۔
یہ اعلان ہفتہ کے روز کراچی پریس کلب میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے لواحقین کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
آمنہ بلوچ نے کہا کہ ان کی ایک جمہوری اور پرامن تحریک ہے۔ اگر طاقت کا استعمال کیا گیا تو بھرپور مزاحمت کرینگے۔ ہماری جمہوری اور پرامن تحریک کو دبانے کے لئے طاقت کا استعمال سے گریز کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ماورائے قانون کے مرتکب ہورہے ہیں۔ جس سے سندھ میں بھی انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ اس وقت بے شمار افراد سی ٹی ڈی سندھ اور وفاقی اداروں کے قید میں ہیں۔ وہ بے گناہ ہیں۔
آمنہ بلوچ نے لاپتہ افراد کے لواحقین اور سندھ حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں حکومت کی ہٹ دھرمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سندھ حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کیحوالے سے ہونے والے مذاکرات سے سنجیدہ نہیں ہے۔ سولہ روز گزرنے کے باوجود ایک بھی لاپتہ فرد کی بازیابی نہیں ہوئی حالانکہ مذاکرات کا آغاز خود سندھ حکومت نے سندھ پولیس کے حکام کے ذریعے کیا تھا جس کا اس نے خیر مقدم کیا تھا کیونکہ وہ جمہوری لوگ ہیں اور بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فرسٹ جولائی کو ان کی قیادت میں کراچی سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین نے ایس ایس پی ساؤتھ سے ملاقات کی۔ اس مذاکرات میں سندھ کے وزیر میر شبیر بجارانی کو آنا تھا مگر افسوس کہ وہ اجلاس میں شریک نہ ہوسکے۔ تاہم انہوں نے کراچی سے لاپتہ ہونے والے افراد کی فہرست سندھ پولیس کے حکام کے حوالے کردی۔ اور انہیں یہ یقین دھانی کرائی گئی تھی کہ وہ ان تمام لاپتہ افراد کو جلد بازیاب کروائیں گے۔ اور دوسری میٹنگ دو روز بعد ہوگی جس میں سندھ کے وزیر میر شبیر بجارانی بھی شریک ہونگے۔ مگر نہ دوسری میٹنگ ہوئی نہ اور نہ ہی لاپتہ افراد کی رہائی پر عمل کیا گیا۔
آمنہ بلوچ نے کہا کہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ سندھ حکومت جمہوریت کا نعرہ تو لگاتی ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتی ہے اگرمذاکرات ایک ڈھونگ تھا۔ تو وہ اس ڈھونگ کا مقابلہ سیاسی حکمت عملی سے کرینگے۔ لواحقین کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ دوبارہ سندھ اسمبلی یا وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے دھرنا دیں، ہماری پرامن تحریک کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔
آمنہ بلوچ نے کہا کہ کراچی میں لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لئے احتجاجی کیمپ کراچی پریس کلب کے باہر 22ویں روز میں داخل ہوگیا ہے۔ آج سے وہ احتجاجی کیمپ کو ایک ہفتے کے لئے موخر کررہے ہیں۔ اور کراچی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے سندھ حکومت کو ایک ہفتے کا وقت دے رہئے ہیں۔ اگر ایک ہفتے کے اندر تمام افراد کو رہائی نہیں ملی تو وہ اپنا آئندہ لائحہ عمل کا اعلان لواحقین سے مشاورات کے بعد کرینگے۔ اس مشاورات میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، ایچ آر سی پی سمیت دیگر سول سوسائٹی کی تنظیوں بھی شریک ہونگے۔ اس احتجاج کو وسیع کرنے کے لئے مشاورات کے بعد آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں میڈیا کو آگاہ کرینگے۔
آمنہ بلوچ نے کراچی میں بے گناہ بلوچوں کی جبری گمشدگی میں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو ذمہ دار ٹہراتے ہوئے کہا کہ سندھ پولیس کی معاونت سے وفاقی ادارے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماری پور کے علاقے دلفلاح آباد سے محمد عمران ولد محمد حنیف کو لاپتہ کردیا گیا۔ اسی طرح نوربخش ولد حبیب کو کراچی کے علاقے ریئس گوٹھ سے اٹھالیا گیا۔ لیاری کے علاقے میراں ناکہ سے شوکت بلوچ کو لاپتہ کردیا ہے۔ جبکہ عبدالحمید زہری کو کراچی کے علاقے گلستان جوہر بلاک 13 سے دس اپریل 2021 کی رات تین بجے ایک درجن کے قریب سادہ کپڑوں میں اہلکارو نے ان کے گھر سے لاپتہ کردیا گیا۔ ضلع پنجگور کے علاقے پروم سے تعلق رکھنے والا دوست محمد صالح محمد کو کراچی ایئر پورٹ سے لاپتہ کیا گیا۔ وہ عمان آرمی کے اہلکار ہیں۔ جو چھٹیاں گزارنے اپنے آبائی علاقے آیا ہوا تھا۔ دوست محمد اور عبدالحمید زہری سمیت بعض افراد کا تعلق بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہیں۔
آمنہ بلوچ نے کہا کہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہیکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے میں قاصر ہیں۔ اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی دو بڑی جماعتیں موجودہ حکومت کے اتحادی اور حمایتی ہیں۔ جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں نام نہاد بلوچ قوم پرست جماعتیں دراصل پیٹ پرست جماعتیں بن چکی ہیں۔ ان کا مقصد صرف اقتدار کا حصول ہے۔ ان کو لاپتہ افراد عزیز نہیں ہیں۔ بلکہ انہیں اقتدار عزیز ہے۔اختر مینگل حکومت میں شامل ہیں۔ ان کے پاس وزارتیں بھی ہیں۔ اس کے باوجود سندھ پولیس کراچی سے بے گناہ بلوچوں کو لاپتہ کررہی ہے۔ کراچی میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق سردار اختر مینگل کو بلاول بھٹو سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر وہ خاموش تماشائی ہے۔
آمنہ بلوچ نے نیشنل پارٹی کے رویے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے اپنا اتحاد ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہیئے۔ کیونکہ وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہے۔ اس کے باوجود لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے۔ کراچی سے بے گناہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کا عمل مزید تیز ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزیراعظم شہباز شریف سے جبری گمشدگی روکنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر جبری گمشدگی کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک بلوچ کو حکومت سے اپنی راہیں جدا کریں۔ وگرنہ بلوچ قوم ان دونوں کا احتساب کرے گی۔
اس موقع پر لاپتہ افراد عبدالحمید زہری کی بیٹی سعیدہ حمید اور دیگر لواحقین نے بھی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔