کراچی: بلوچ لاپتہ افرادکااحتجاجی کیمپ جاری، عید پر پیاروں کی بازیابی کامطالبہ

0
195

پاکستان کے صوبہ سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ لاپتہ افراد کا احتجاجی کیمپ آج آٹھویں روز میں داخل ہوگیاہے۔

لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین کا احتجاج کراچی پریس کلب کے باہر ہفتہ کے روز بھی جاری رہی جس میں خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔

لواحقین نے گزشتہ روز سندھ حکومت کی ہدایت پر ہونے والے مذاکرات کے آغاز کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کے اس عمل سے ان کی امیدیں مضبوط ہوگئیں ہیں۔

انہوں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ کراچی میں لاپتہ ہونے والے تمام افراد کو باحفاظت رہا کیا جائے۔ وہ بے قصور اور بے گناہ لوگ ہیں۔ ان کا کسی بھی سیاسی سرگرمی سے واسطہ نہیں ہے۔ وہ کاروباری لوگ ہیں۔ اور اگر کسی کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ وگرنہ انہیں فورا رہا کیا جائے۔

لواحقین کا کہنا تھا کہ انکے پیاروں کو بازیاب کیا جائے اور انہیں اس درد بھری زندگی سے نکالا جائے، اگر ان لوگوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں اپنے قائم کردہ عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

واضح رہے کہ لواحقین نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے آرگنائزر آمنہ بلوچ کے ساتھ ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا سے انکے دفتر میں ملاقات کیں، جہاں سندھ پولیس کے زمہ داراں نے انکے جبری گمشدہ پیاروں کی بازیابی کی یقین دہانی کی۔

لواحقین نے سندھ حکومت سے اپیل کی کہ عید کے خوشیوں کے آمد پر انکے پیاروں کو بازیاب کیا جائے تاکہ وہ گھر میں خوشی سے عید منا سکیں۔

کراچی پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے احتجاجی کیمپ احتجاجی کیمپ کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ احتجاجی کیمپ کی قیادت کررہی ہیں۔ احتجاجی کیمپ کراچی سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین شامل ہیں۔

لاپتہ ہونے والوں میں کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے لاپتہ ہونے والے عبدالحمید زہری، کراچی کے علاقے ملیر سے سعید احمد ولد محمد عمر، ماری پور سے لاپتہ ہونے والے محمد عمران، لیاری سے لاپتہ ہونے والے شوکت بلوچ اور رئیس گوٹھ کراچی سے لاپتہ ہونے والے نوربخش ولد حبیب کے لواحقین شامل ہیں۔

کیمپ میں اظہار یکجہتی کرنے کیلئے ایڈوکیٹ وقار بلوچ اور دیگر شامل تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here