بلوچستان اور سندھ سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لئے احتجاجی کیمپ کراچی پریس کلب کے باہر اتوار کے روز بھی جاری ہے۔
کراچی سے لاپتہ ہونے والے کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے حکومتی اداروں کی جانب سے بلوچوں کے اغوا کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔
احتجاجی کیمپ کو ٹارچر کے عالمی دن کے مناسب سے منسوب کیا گیا۔
کیمپ میں ٹارچر سیل اور تشدد سے متعلق پوسٹرز اور بینرز بھی آویزہ کئے گئے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے لواحقین سے خطاب کرتے ہوئے جبری گمشدگی کو ماورائے قانون قراردیا اور کہا کہ اگر لاپتہ افراد کے خلاف کوئی ثبوت ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ ہونے والے افراد بے گناہ اور بے قصور ہیں۔
آمنہ بلوچ نے کراچی سے بلوچوں کی گمشدگی پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔
آمنہ بلوچ نے عالمی ٹارچر ڈے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جیلوں اور زندانوں میں زیر حراست افراد انتہائی غیر انسانی سلوک، رویہ اور قانونی کی حکمرانی کے لئے بہت بڑا خطرہ اور چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تشدد اور ٹارچر عروج پر ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔
کراچی پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے احتجاجی کیمپ احتجاجی کیمپ کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے میڈیا کو لاپتہ افراد کی گمشدگی کی فہرست جاری کردی۔ جس کے مطابق کراچی میں ماری پور کے علاقے دلفلاح آباد سے محمد عمران ولد محمد حنیف کو لاپتہ کردیا گیا۔ اسی طرح کراچی کے علاقے ملیر سے سعید احمد ولد محمد عمر کو سی ٹی ڈی اور فورسز نے گھر سے اٹھالیا۔ سعید احمد کا تعلق ضلع کیچ کے دشت کڈان سے ہے۔ لیاری کے علاقے میراں ناکہ سے شوکت بلوچ کو لاپتہ کردیا ہے۔
لواحقین نے متحدہ عرب امارت حکام کی جانب سے پاکستان کے حوالے کرنے والے دو بلوچ ایکٹویسٹ راشد حسین اور عبدالحفیظ زہری کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں لاپتہ بلوچ کارکنوں کی زندگی کو حراست میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جبکہ عبدالحفیظ زہری کو کراچی کے ایک جیل سے منظر عام میں لایا گیاہے۔ عبدالحفیظ زہری کے کزن عبدالحمید زہری کو 10 اپریل 2021 کو کراچی سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے۔ سندھ پولیس کی مدد سے انہیں گلستان جوہر کراچی میں واقعہ انکے گھر سے لاپتہ کردیا گیا۔
طالبعلم رہنما شبیر بلوچ کو کیچ کے علاقے گورکوپ سے 4 اکتوبر 2016 کو حراست میں لے کر جبرا لاپتا کردیا۔ اس وقت ان کی بیوی زرینہ اور ان کی بہن سیما سراپا احتجاج ہیں۔
سیاسی و سماجی رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 28 جون 2009 کو ضلع خضدار کے علاقے ”اورناچ“ سے دورانِ ڈیوٹی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ان کی جبری گمشدگی کے بعد ان کی بیٹیاں سمی دین بلوچ اور مہلب بلوچ سراپا احتجاج ہیں۔
سمی دین بلوچ، ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کے شرکا میں شامل تھیں۔ آج کل وہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔