پاکستان کے صوبہ سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں بلوچوں کی جبری گمشدگیوں کیخلاف اتوار کے روز لواحقین نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ کی قیادت میں کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ جس میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔
مظاہرے میں سندھ حکومت اور فورسز کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔
کراچی میں بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ مختلف علاقوں سے بے شمار بلوچ نوجوانوں کو حراست میں لے کر لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
جبکہ دوسری جانب ایک مرتبہ پھر لاپتہ افراد کے لواحقین سڑکوں پر احتجاج کرنے پرکمربند ہوگئے۔
احتجاجی مظاہرین نے سندھ حکومت، سی ٹی ڈی اور فورسز کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔
مظاہرے میں تھانے چلو! یا لاڑکانہ چلو! کے نعرے بلند ہوگئے۔
ان احتجاج کرنے والے لاپتہ افراد کے لواحقین کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی حمایت حاصل تھی۔
اس موقع پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی کے علاقے سنگھور پاڑہ ماری پور سے تین نوجوانوں کو سادہ وردی میں ملبوس اہلکاروں حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔ جن میں علی ولد بخشی، اصرار ولد انورعمر اور نواز علی ولد ناصر شامل ہیں۔اسی طرح ماری پور کے علاقے دلفلاح آباد کے علاقے سے محمد عمران ولد محمد حنیف کو لاپتہ کردیا گیا۔ اسی طرح کراچی کے علاقے ملیر سے سعید احمد ولد محمد عمر کو سی ٹی ڈی اور سیکیورٹی فورسز نے گھر سے اٹھالیا۔ سعید احمد کا تعلق ضلع کیچ کے دشت کڈان سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوربخش ولد حبیب کو کراچی کے علاقے ریئس گوٹھ سے اٹھالیا گیا۔ نوربخش کا تعلق مکران ڈویژن سے ہے۔
کراچی میں جبری گمشدگی کے خلاف تحریک چلانے والی رہنما آمنہ بلوچ نے کہا کہ سندھ میں ہمارے بے شمار نوجوان اور بزرگ سیکیورٹی اداروں کے قید میں ہیں۔ آئے روز کراچی کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارے جارہیے ہیں۔ خواتین اور بچیوں کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کے سامنے ان کے بیٹوں اور بھائیوں کو اٹھاکر لاپتہ کیا جاتا ہے۔
آمنہ بلوچ نے کراچی میں بلوچ آبادیوں کو نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ہر بلوچ دہشتگرد نظر آتاہے۔
انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ کراچی میں بے گناہ نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کا نوٹس لیا جائے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائنزر لالہ وہاب بلوچ نے سندھ حکومت کو وفاقی سیکیورٹی اداروں کی سرپرستی کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت اپنا قبلہ درست کرلیں۔ اور مطالبہ کیا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو، سندھ میں لاپتہ ہونے والے بلوچ نوجوانوں کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں۔ وگرانہ ہم وزیراعلیٰ ہاؤس اور سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے کا آئینی و قانونی حق رکھتے ہیں۔
وہاب بلوچ نے وفاقی حکومت میں شامل بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے رویے پر بھی سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اقتدار عزیز ہے۔
اس موقع پر لاپتہ اصرار کے والد انور عمر، لاپتہ سعید بلوچ کے بھائی ولید رند،لاپتہ عمران کی والدہ، میراں ناکہ لیاری سے لاپتہ شوکت کی والدہ، لاپتہ عبدالحمید زہری کی بیٹی سعیدہ حمید سماجی اور سیاسی رہنما، کوثر بلوچ، ڈاکٹر فقیر محمد سنگھور اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔