جبری گمشدگیوں کیخلاف پورابلوچستان سراپا احتجاج | سنگر ماہانہ رپورٹ

0
772

ماہِ مئی میں 50سے زائد فوجی آپریشنز میں 51افرادلاپتہ،22افرادقتل،65 گھرلوٹ مارونذر آتش کردیئے گئے

سنگر کا تجزیاتی رپورٹ چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے

ہر مہینے کی طرح اس مہینے بھی بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال عالم ِ نزع کی سی رہی۔
پاکستانی فورسز نے مئی کے مہینے میں مقبوضہ بلوچستان میں پچاس سے زائد فوجی کارروائیوں میں 51 افراد کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا،جس میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں۔
ان وحشیانہ فوجی کارروائیوں کے دوران 65 سے زائد گھروں میں لوٹ مار کی گئی اور130 خواتین و بچوں کوہراساں کرنے کے ساتھ ان پر تشدد کیا گیا۔
مئی کے مہینے میں 22 نعشیں برآمد ہوئیں،دو افراد کو فورسز نے زیر حراست تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا۔جبکہ6 لاشوں کے محرکات سامنے نہیں آ سکے۔پانچ لاشوں کی شناخت نہ ہو سکی اور چار لاشیں بغیر شناخت کے دفن کیے گئے۔اٹھائیس بلوچ ڈیرہ بگٹی میں ہیضے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔چمن میں ایک بچہ دھماکے میں مارا گیا ایک زخمی ہوا،ریاستی پشت پناہی میں ایک وڈیرے نے ایک مری بلوچ خاتون کا قتل کیا اور لاش اسکے خاندان کے حوالے نہیں کیا۔
گیارہ افراد ریاستی عقوبت خانوں سے بازیاب ہوئے جن میں سے دو افراد 2020،تین افراد2021 اور باقی افراد رواں سال پاکستانی فورسز نے لاپتہ کیے تھے۔
مئی کے مہینے میں پاکستانی فورسز کی ظلم و بربریت عروج پر رہی اور فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے بیشتر افراد طالب علم تھے۔مئی کے مہینے بلوچ سرزمین لہو لہاں رہا، اس دوران ریاستی بربریت کے خلاف بلوچ نوجوان،خواتین و بچے پورا مہینہ سراپا احتجاج رہیں۔
ایک طرف پاکستان اندرونی زبوں حالی کا شکار ہے تو دوسری جانب بلوچ سرمچاروں کے پہ در پے حملوں سے پاکستانی فوج حواس باختگی میں تمام عالمی جنگی قوانین کو روندھتے ہوئے خواتین و بچوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنا رہی ہے تاکہ بلوچ نسل کو سیکس سلیب کے طور پر استعمال کریں جس پر دنیا کے تمام عالمی تنظیموں نے خاموشی اختیار کیا ہوا ہے جو یقینا قابض ریاستی بربریت کو مزید توانائی دے گی۔
آج ریاستی جبر نے بلوچ کو شعوری بنیادوں پر مضبوط توانائی بخشی ہے، اور شاری بلوچ کی قربانی نے بلوچ مردوں کے ساتھ خواتین میں مزاحمت کو پروان چڑھایا ہے۔
آج بلوچ خواتین نے مزاحمت کرکے سماج میں بسنے والے تمام لوگوں کو بتادیا کہ مزاحمت کھٹن ضرور ہوتی ہے، مزاحمت میں انسان جان سے ضرور چلا جاتا ہے لیکن یہ مزاحمت انسانی تاریخ کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ بلوچ خواتین کی قرباینوں نے سماج میں قائم خوف اور جمود کی فضاء کو زمین بوس کر دیا ہے۔
آج ریاستی جبر نے نہ صرف بلوچ قوم کو یکجاء کر دیا ہے بلکہ بلوچ قومی سوال کے دشمن عناصر جو پاکستانی غلامی کو دوام دینے کے درپے ہیں انھیں مکمل تنہائی کا شکار بنا دیا ہے جو بلوچ قومی جہد آزادی کے لے اہم سنگ میل ہے۔

تفصیلی رپورٹ

یکم مئی
۔۔۔ کو ئٹہ کے وسطی علا قے ٹیکسی اسٹینڈ سے ایک شخص کی نعش ملی، اتوار کے روز کو ئٹہ کے مرکزی علاقے ٹیکسی اسٹینڈ سے ایک شخص کی نعش بر آمد ہو ئی ہے جسکی شناخت نہ ہو سکی۔

2 مئی
۔۔۔ بلوچستان کے علاقے نوشکی اور حب چوکی سے پاکستانی فورسز نے 2 بلوچ طالب علموں کو حراست میں لینے کے بعد جبری طور پرلاپتہ کردیا ہے۔ یکم مئی کو سیکورٹی فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حب چوکی کے علاقہ بھوانی میں ایک گھر پر چھاپہ مارتے ہوئے طالب علم کو حراست میں لیکر اپنے ہمراہ لے گئے ہیں۔حب چوکی سے فورسز کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے نوجوان کی شناخت یاسر ولد حمید کے نام سے ہوئی ہے۔
نوشکی سے فورسز اور خفیہ اداروں نے اہلکاروں نے ایک گھر پر چھاپہ مارتے ہوئے میڈیکل کے طالب علم کو حراست بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔جس کی شناخت عتیق کے نام سے ہوگئی ہے۔

3 مئی
۔۔۔ عید کے روز گزشتہ دنوں پنجگور میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کی جانب سے دادجان کی بہیمانہ قتل اور قاتلوں کی عدم گرفتاری اور بیبگر امداد سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔احتجاج ریلی میں خواتین اور بچوں سمیت لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
۔۔۔ ضلع کوہلو سے دو افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں، لاشوں کو تحویل میں لے کر ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے تاہم دونوں لاشوں کی شناخت نہیں ہو سکی۔

4 مئی
۔۔۔عید کے روز کوئٹہ اور کراچی میں لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
عیدالفطر کے پہلے روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بلوچ اور سندھی لاپتہ افراد کے لواحقین نے پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کیا۔احتجاج میں خواتین و بچوں نے حصہ لیکر عید کا پہلا دن پریس کلبوں کے سامنے گزارا جبکہ اس موقع پر لاپتہ افراد کے لواحقین آبدیدہ ہوگئے۔بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں عیدالفطر کے پہلے دن کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے کی اپیل بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے دی تھی۔
۔۔۔وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئیرمین ماما قدیر بلوچ کے بھائی کے دو بیٹوں محمد آصف اور الہ دین کو فورسز نے لاپتہ کیا۔

5 مئی
۔۔۔ کوئٹہ کے علاقے باچا خان چوک کے قریب سے ایک شخص کی لاش ملی ہے جسے ایدھی ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال منتقل کرکے شناخت کے لئے رکھ دیا گیا ہے۔لاش کی شناخت نہ ہو سکی۔
۔۔۔مستونگ سے فورسز نے دو افراد کو لاپتہ کر دیا، نوجوانوں کی شناخت عرفان بنگلزئی اور ساجد علی کے ناموں سے ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق عرفان بنگلزئی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) اور سماجی و فلاحی تنظیم المدد فاؤنڈیشن کا کارکن ہے۔اسی طرح کلی لدھا ضلع مستونگ کے رہائشی 16 سالہ ساجد علی ولد کمال خان ساسولی کو بدھ و جمعرات کے درمیانی شب رات 2بجے کے قریب سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے گھر سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے۔
۔۔۔ رواں سال مارچ کے مہینے میں پنجگور سے فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے ولا شخص نیم زندہ حالت میں بازیاب ہوا ہے۔بازیاب ہونے والے شخص کی شناخت غنی ولد لشکری کے نام سے ہوئی ہے۔مذکورہ شخص کو دوران حراست شدید تشدد کا نشانا بنایا گیا جسکی وجہ سے اسکی طبیعت غیر ہے۔

6 مئی
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور میں ایک مسافر بس سے پاکستانی سیکورٹی فورسز نے ایک شخص کواتار کر جبری طور پر لاپتہ کردیا، ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے جمعہ کے روز کوئٹہ جانے والی مسافر بس سے پاکستانی سیکورٹی فورسز نے ایک شخص کو اتارکرجبری طور پرلاپتہ کردیا۔بس میں سوار مسافروں کے مطابق بس کو پنجگور کی حدود میں ایف سی چیک پوسٹ پر روک لیا گیا اور فورسز اہلکار بس میں داخل ہوکر ایک مسافر کو تشدد کرتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے جسکی شناخت شاہ بیگ داد ولد ولی داد کے نام سے ہوئی جو شاپک کیچ کا رہائشی بتایا جاتا ہے۔
۔۔۔پاکستانی فورسز کے زیر حراست شخص کی لاش بلوچستان کے صنعتی شہر حب سے برآمد ہوئی ۔ سدرن بائی پاس حب (دارو ہوٹل) کے قریب سے ملنے والی لاش کی جسم پر گولیوں کے نشانات ہیں۔پولیس کے مطابق لاش دو روز پرانی لگتی ہے۔لاش کی شناخت زاہد شیخ کے نام سے ہوا جسکو فورسز نے عید کے روز حب سے لاپتہ کیا تھا۔
۔۔۔بلوچستان کے صنعتی شہر حب اور ضلع پنجگور میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ اور قتل ہونے والے زاہد شیخ اور شاہ بیگ کے لواحقین نے ردعمل میں روڈ بلاک کرکے شدید احتجاج کیا۔ زاہد شیخ کو اغوااور قتل کے خلاف شیخ برادری کا حب شہر اور حب بائی پاس پر احتجاج قومی شاہراہ کو ٹریفک کے بند کردیا گیا۔
دوسری جانب سی پیک روڈ پر واقع وشبود ایف سی چیک پوسٹ پر تربت کے مسافر بس سے ایک نوجوان کو بس سے اتارجبری طور پر لاپتہ کرنے کے خلاف تربت ٹو کوئٹہ دو بسوں کیمسافروں نے روڈ بلاک کرکے احتجاج کیا۔

7 مئی
۔۔۔بلوچستان میں زلزلے کے جھٹکوں سے 80 گھر منہدم، 200 سے زائد خاندان بے گھر ہو گئے۔
جمعہ کو بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے اورناجی میں درمیانے درجے کی شدت کے زلزلے سے کم از کم 80 مکانات منہدم ہوگئے جس سے 200 سے زائد خاندان بے گھر ہو گئے۔
۔۔۔بلوچستان کے علاقے بارکھان میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار ڈاکٹر جمیل بلوچ کی بازیابی کیلئے ریلی اوراحتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ریلی و احتجاجی مظاہرہ بارکھان ویلفئر سوسائٹی کی جانب سے کی گئی جس میں ڈاکٹر جمیل احمر کھیتران کے اہلخانہ سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے حصہ لیا۔

8 مئی
۔۔۔بلوچستان کے ضلع سبی کے رہائشی امام بخش ولد کالو خان ابڈو کی لاش سندھ سے برآمد ہوا ہے۔ذرائع کے مطابق امام بخش کو رواں سال کے 28 اپریل کو سندھ کے علاقے سکھر میں سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا جسکی لاش آج حیدر آباد سے برآمد ہوئی۔لواحقین کے مطابق انہیں سی ٹی ڈی نے گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا تھا اور بعد ازاں اسکی لاش برآمد ہوا ہمیں انصاف دیا جائے۔خیال رہے کہ بلوچستان اور سندھ میں کئی لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن پر تشدد کے نشانات بھی پائے جاتے ہیں۔

9 مئی
۔۔۔پاکستان کے صوبہ سندھ کے مرکزی شہر کراچی سے پاکستانی سیکورٹی فورسز نے 3 بلوچ نوجوانوں کو گرفتاری کے بعد جبری طور پرلاپتہ کردیا ہے۔جن کی شناخت راشد بلوچ ولد تاج بخش بلوچ،علی ولد بخشی اور اصغر ولد عیسیٰ کے ناموں سے ہوگئی ہے۔راشد بلوچ ولد تاج بخش بلوچ جولیاری غلام شاہ لین اولڈ کمہار واڑہ کا رہائشی ہے جسے 7 مئی کی رات فورسزاہلکاروں نے گرفتاری کے بعد جبری طور پرلاپتہ کردیا تھا۔ذرائع کے مطابق رینجرز اور دیگر فورسز کے اہلکار پانچ ویگو گاڑیوں میں سوار تھے جنہوں نے انہیں گھر کے قریب سے اٹھا لیا، جو اب تک لاپتہ ہے۔
منگل اور بدھ کی درمیانی رات کراچی کے علاقے ماری پور سنگھور پاڑہ کے دونوجوانوں علی ولد بخشی اور اصغر ولد عیسی کو رینجرز اور سادہ وردی میں ملبوس اہلکاروں نے جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔لواحقین کے مطابق علی اور اصغر کا تعلق کسی سیاسی تنظیم سے نہیں، بلکہ دونوں طالب علم اور فٹبالر ہیں۔
۔۔۔کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے بی این پی مینگل کے لیبر سیکرٹری موسیٰ بلوچ کے بھائی کو قتل کردیا۔بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)کے لیبر سیکرٹری موسیٰ بلوچ کے بھائی سعید بلوچ کو کشمیر آباد قمبرانی روڈ پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ سعید بلوچ بی این پی کے متحرک کارکن تھے۔ قتل کے محرکات سامنے نہ آسکے۔
۔۔۔پنجگور کے مرکزی علاقے چتکان میں رخشان ندی سے پولیس نے ایک لاش برآمد کرلی ہے۔لاش کو پولیس نے تحویل میں لے کر ٹیچنگ اسپتال پنجگور منتقل کردیا جہاں اسکی شناخت عبدالحکیم سکنہ دازی بونستان کے نام سے ہوئی ہے۔محرکات واضح نہ ہو سکے۔
۔۔۔خضدار شہر سے فورسز نے گلزار احمد ولد عبدالغفور سکنہ کوچک گریشک کو حراست بعد لاپتہ کیا۔

10 مئی
۔۔۔ڈیرہ بگٹی میں ہیضے کی وبا سے15 افراد جابحق ہو گئے، بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں ہیضے کی وبا کی صورتحال گھمبیر ہورہی ہے۔گزشتہ 25 روز کے دوران ضلع میں ہیضے کے 979 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ اس وباسے دو اموات ہوئیں ہیں۔
۔۔۔جبری گمشدگی کے شکار بلوچ طالب علم بیبگرلاہور سے بازیاب ہو گیا۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں، پنجاب یونی ہاسٹل سے تقریباً 12 روز قبل پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے بلوچ طالب علم بیبگر امداد گذشتہ شام لاہور سے بازیاب ہو گئے۔
۔۔۔بلوچستان کے علاقے وڈھ میں کلی براہمزئی سے 7 سال قبل پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکارمحمد انور براہمزئی کی والدہ اور دیگر اہلخانہ نے قومی شاہراہ پر دھرنا دے کر شاہراہ کو بند کردیا۔

11 مئی
۔۔۔پاکستانی سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری نے 7 مئی کی رات 2 بجے حب چوکی چیزل آباد زامرانی محلہ سے لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز کے طالب علم ظہور بلوچ کوان کے گھر سے حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کردیا۔ساتھی طالب علموں کے مطابق ظہور بلوچ لمز یونیورسٹی اوتھل میں پہلے سمسٹر کا طالب علم ہے اور انکی عمر اکیس سال ہے۔ ظہور بلوچ کی کسی بھی سیاسی سرگرمی سے وابستگی نہیں رہی ہے۔
۔۔۔ ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے تربت یونیورسٹی میں ایم اے بلوچی لٹریچر کے اسٹوڈنٹ کلیم شریف کو عید سے پانچ دن قبل تربت آبسر سے سیکورٹی فورسز نے جبراً حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے۔
۔۔۔ گذشتہ دنوں چھ مئی گوادر کے رہائشی دانش ولد بشیر کو فورسز نے کراچی سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق مذکورہ شخص گوادر پورٹ میں ملازم ہے جو اس وقت کراچی اپنے نجی کام کے سلسلے میں گیا ہوا تھا جسے فورسز نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کے علاقے فرید آباد میں بدھ کے روز فائرنگ کے ایک واقعے میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل سے تعلق رکھنے والا امیدوار برائے بلدیاتی انتخابات جانبحق ہوگیا،قتل کے محرکات سامنے نہ آسکے۔
۔۔۔ضلع پنجگور کے علاقے گچک سے فورسز نے کریم بخش اسکی بیوی بیٹی نور گل کے ساتھ لاپتہ کر دیا۔

12 مئی
۔۔۔بلوچستان کے علاقے چمن میں بارودی دھماکے سے ایک بچہ ہلاک ہوگیا ہے۔ چمن میں رحمان کہول روڈ نالے میں پڑی بارودی مواد میں دھماکہ ہوا۔جس سے ایک بچہ ہلاک جبکہ ایک بچہ شدید زخمی ہوا۔
۔۔۔کوہلو میں ڈوگری قبرستان مری کالونی کے قریب ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔جس کی شناخت فلک شیر خروٹیانی مری کے نام سے ہوئی ہے جو کراچی کا رہائشی ہے۔کہا جارہا کہ وہ دو دن قبل اپنے رشتے داروں کے گھر کوہلو مری کالونی آیا اور موٹر سائیکل لیکر کہیں چلا گیا۔ موٹر سائیکل سمیت لاش ڈوگری قبرستان کے قریب ملا۔وجوہات سامنے نہیں آ سکے۔
۔۔۔پاکستانی فورسز نے کراچی و کوئٹہ سے چار بلوچ طلبا کو حراست میں لے کر لاپتہ کردئیے۔لاپتہ ہونے والوں میں سے تین کو کراچی اور ایک کو کوئٹہ سے حراست میں لیا گیا ہے۔
کراچی کے علاقے لیاری سے گذشتہ شب وحید بلوچ نامی نوجوان کو فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔ کل رات سندھ رینجرز اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار جو ایک سیاہ رنگ ویگو گاڑی میں سوار تھے انہیں حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔جبکہ کراچی ہی سے ا کمبر سلیم سکنہ بلیدہ مہناز جو کراچی یونیورسٹی میں بی ایس ایگریکلچرل کا طالب ہے جنہیں فورسز نے کل کراچی سے حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔کراچی یونیورسٹی کے بائیو کیمسٹری کے طالب عرفان ولد عبدالرشید سکنہ بلیدہ مہناز کو گذشتہ شب کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے فورسز نے گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
کوئٹہ سے سی ٹی ڈی نے ایم فل کے ڈگری یافتہ مسلم ولد اللہ بخش کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔ مذکورہ نوجوان نے اپنی ایم فل پنجاب یونیورسٹی سے مکمل کی ہے اور وہ اس وقت سول سروس کے امتحان کی تیاری کررہا تھا۔
۔۔۔بلوچستان کے علاقے وندر میں میراں پیر روڈ پٹھان کالونی سے پاکستانی سیکورٹی فورسز نے گذشتہ شب ایک گھر پر چھاپہ مارکر ایک بلوچ نوجوان کو حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔لاپتہ کئے گئے نوجوان کی شناخت وسیم شریف کے نام سے ہوگئی ہے جو محکمہ ایجوکیشن بلوچستان ضلع آواران کے ریٹائر ٹیچر ماسٹر محمد شریف کے بیٹے ہیں۔ماسٹر محمد شریف جو کہ گزشتہ کہی سالوں سے وندر میں رہائش پذیر ہیں۔خاندانی ذرائع کے مطابق گذشتہ شب،رات گئے دو ویگو گاڑیوں میں سوار مسلحہ افراد جن کی تعداد 12 کے قریب تھی نے گھر کی دیواریں پھلانگ کر وسیم شریف کو اسلحہ کے زور پر جبری طور پر اٹھا کر لے گئے۔

13 مئی
۔۔۔ کولواہ میں پاکستانی فورسز نے خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کی، گذشتہ رات کو ’یارو نامی ایف سی صوبیدار کے ماتحت اہلکار‘ کولواہ ڈنڈار ضلع کیچ کے گاؤں ڈل بازار میں گھر میں مردوں کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھا کر بندوق کے زور پر داخل ہوئے اور خواتین اور بچوں کے جنسی زیادتی کی کوشش کی۔خواتین اور بچوں کی مزاحمت اور چیخ و پکار پر گاؤں کے مکین جمع ہوگئے جس سے ایف سی اہلکاروں کو اپنے مقصد میں ناکام ہوکر لوٹنا پڑا۔
۔۔۔۔نوشکی سے اغوا ہونے والے دو بھائی بہروز اور سرور ولد ماسٹر حمد غلام بازیاب ہو گئے، دونوں بھائیوں کو نومبر2021 کو اپنے گھر سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔
۔۔۔بلوچستان کے علاقے ہرنائی دکی سے تعلق رکھنے والے سید محمد مری جو اپنے بیٹے کے ساتھ بکریاں بیچنے شہر جا رہے تھے انکو فورسز نے لاپتہ کیا۔

14 مئی
۔۔۔بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ہفتے کے روز پاکستان آرمی کے ایک چیک پوسٹ پر حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی گاڑی کو روک کر شناختی کارڈ اور دیگر کاغذات چیک کی گئی – بعدازاں صورتحال اس وقت کشیدہ ہوا جب ایک اہلکار نے مبینہ طور پر انہیں گالیاں دی اور گولی مارنے کی دھمکی بھی دی –

15 مئی
۔۔۔کوئٹہ سے لاپتہ وحید احمد ولد رستم خان اور محمد رحیم داد ولد یقعوب بازیاب ہو گئے،جنکو فورسز نے تین سال قبل جبری گمشدگی کا شکار بنایا تھا۔

16 مئی
۔۔۔۔داد جان بلوچ کے قاتلوں کی عدم گرفتاری کیخلاف کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔بلوچستان کے ضلع پنجگور میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے داد جان بلوچ کے لواحقین نے پریس کلب کوئٹہ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
۔۔۔ہوشاپ میں فورسزہاتھوں خاتون لاپتہ، علاقہ مکینوں کا احتجاج، سی پیک روڈ بلاک کر دیا گیا۔
بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ میں آج بروزپیر کوپاکستانی فورسز نے ایک گھر میں چھاپہ مارکر ایک خاتون کو جبری طور پرلاپتہ کردیا۔ ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ میں کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)کے اہلکاروں نے ایک گھر پرچھاپہ مارکر نور جان زوجہ فضل نامی ایک خاتون کو حراست میں لے کرجبری طورپر لاپتہ کردیا۔واقعہ کیخلاف علاقہ مکینوں نے احتجاجاً سی پیک شاہراہ کو بلاک کردیا۔ لاپتہ خاتون تین بچوں کی ماں ہے۔

17 مئی
۔۔۔ پاکستانی فورسز نے ضلع کیچ کے علاقے کولواہ اور کراچی سے چار افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔ جن کی شناخت فضل ولد محمد علی، سہیل احمد ولد محمد حیات، سلمان ولد عثمان اور صدیق ولد جمعہ کے ناموں سے ہوئی ہے۔ان میں سے فضل کو ضلع کیچ کے علاقے کولواہ بدرنگ سے حراست میں لیا گیا ہے جبکہ سہیل احمد کو کراچی کے علاقے رحمان گوٹھ اور سلمان و صدیق کو کراچی کے علاقے ملیر سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔
سلمان و صدیق کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ دونوں نوجوان پیر و منگل کی درمیانی شب اس وقت لاپتہ ہوئے جب وہ بحریہ ٹاون کی جانب گاڑی میں نکلے تھے۔
۔۔۔ہوشاپ کے علاقے تل گاؤں سے فورسز نے نسیم ولد عظیم کو لاپتہ کر دیا۔

18 مئی
۔۔۔کوئٹہ سے ملنے والی 4 لاشیں لاوارث قرار دیکر دفنادی گئیں،بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے ملنے والی 4 لاشوں کو لاوارث قرار دیکر دفنا دیا گیا۔
منگل کو ایدھی حکام نے کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں سے ملنے والی چار لاوارث میتوں کی دشت قبرستان میں تدفین کردی۔یہ لاشیں مختلف اوقات میں شہر سے ملیں تھیں جن کے ورثاء معلوم نہ ہونے پر انکی تدفین کردی گئی۔واضع رہے کہ بلوچستان سے ملنے والی اکثر لاشیں لاپتہ افراد کی ہوتی ہیں لیکن انتہائی مسخ شدہ اور ہڈیوں میں تبدیل ہونے کی وجہ سے ان کی شناخت نہیں ہوپاتی اور نہ ہی سرکاری سطح پران کی ڈی این اے کرانے کاکوئی سہولت موجود ہے جس کی وجہ سے ان کی فیملی ان کی شناخت کرنے سے قاصر رہتے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں لاوارث قرار دیکر دفنا دیا جاتا ہے۔

19 مئی
۔۔۔ایم فل کے طالبعلم گزین بلوچ کو سیکورٹی فورسز نے دوبارہ جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔ کوئٹہ میں پاکستان فورسز نے گزین بلوچ اور اس کے دوست میر احمد بلوچ کو میر ہوٹل کے سامنے سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا۔گزین بلوچ کا اصل نام مسلم اللہ بخش ولد اللہ بخش ہے جوتربت کے رہائشی ہیں اور وہ گزین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
۔۔۔ایک اور بلوچ خاتون پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ ہو گیا،لاپتہ کئے گئے خاتون کی شناخت حبیبہ پیر محمد کے نام سے ہوگئی ہے جوبلوچی زبان کے ایک شاعر اور قلمکار ہیں۔اوراس کاتعلق ضلع کیچ کی تحصیل تمپ کے گاؤں نذر آباد سے ہے۔حبیبہ پیر محمد کو جمعرات کی صبح کراچی سے پاکستانی فورسز جن میں خفیہ اداروں کے اہلکار، رینجرز اور پولیس بھی اہلکار بھی شامل تھے نے ان کے گھر سے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔

20 مئی
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگورکے تحصیل پروم کے رہائشیوں کا گزشتہ شب انکے گھروں پر حملہ چادر اور چاردیواری کی پائمالی کرنے والے گروہ کو فوری طور پر گرفتار کرکے انہیں سماج دشمن عناصر سے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔تحصیل پروم کے معتبرین سید محمد عبید کریم حاجی لیاقت حاجی شریف شاہسوار حاجی عبید نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ فقیر محمد عرف فقیرک نے 18 مئی کے درمیانی شب ہمارے گاوں میں عبید کریم اور ملک کریم کے گھر پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ اور ہوکر شدید فائرنگ کی۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع شیرانی کے جنگلات میں ایک اور مقام پر آگ بھڑک اٹھی ہے،آتشزدگی کے باعث 3افراد جابحق جبکہ 3زخمی ہوگئے ہیں۔واضح رہے ضلع شیرانی میں آسمانی بجلی گرنے سے 8روز قبل جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی تھی اور ایک ہفتے کے دوران جنگلات میں آگ لگنے کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔
۔۔۔متحدہ عرب امارات کے سٹی دوبئی میں رواں سال 27 جنوری کو لاپتہ ہونے والے عبدالحفیظ زہری کو کراچی کے ایک جیل میں ظاہر کردیا گیاہے۔

21 مئی
۔۔ خاران کے علاقے لجے میں پاکستانی فورسز نے کشمیر محمد حسنی کے گھر پر چھاپہ مارا، اس دوران گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی جبکہ گھر میں موجود خواتین و بچوں سمیت دیگر افراد کو زدوکوب کیا گیا۔
۔۔۔پاکستانی فورسز نے کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون فقیر کالونی سے ایک شخص کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت مْلا منیر ولد حمزہ کے نام سے ہوئی ہے۔

22 مئی
۔۔۔ شاعرہ حبیبہ پیرجان، فٹبالر عبدالرشید، گلوکار اشرف رضا، سعید محمد مری و فیاض سرپرہ بازیاب
پاکستانی سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار بلوچ شاعرہ و آرٹسٹ حبیبہ پیرجان، فٹبالر عبدالرشید، گلوکار اشرف رضا، سعید محمد مری اور فیاض احمد سرپرہ بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے ہیں۔اس با ت کی تصدیق لاپتہ افراد کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کی گئی ہے۔
۔۔۔سندھ کے مرکزی شہر کراچی کے مغربی ضلع کیماڑی ٹاؤن کے علاقے ماری پور سے صبح بروزاتوار 5 بلوچوں کو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا۔ جبری لاپتہ کیے جانے والے افراد کی شناخت نواز علی ولد ناصر، عادل ولد امام بخش، زاہد ولد جان محمد، اسرار ولد انور اور علی ولد بخشی کے ناموں سے ہوئی ہے۔اسرار، نواز اور علی اس سے پہلے بھی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار ہوچکے ہیں۔ علی اور اسرار طالب علم اور فٹبالر ہیں جبکہ دیگر جبری لاپتہ افراد ماہی گیری اور مزدوری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
۔۔۔ سوئی کے قریب فائرنگ سے ایک شخص ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا۔زخمی شخص کو ہسپتال منتقل کردیا گیا،۔واقع کے محرکات سامنے نہیں آ سکے

23 مئی
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کے قریبی علاقے آبسر آسکانی کے پہاڑی علاقوں میں فوجی آپریشن، علاقہ مکینوں نے مذکورہ علاقے میں گن شپ و دیگر ہیلی کاپٹروں کو فضاء میں دیکھا جبکہ فوج کے گاڑیوں کے قافلے کو بھی مذکورہ علاقے میں پیش قدمی کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹروں نے پہلے شیلنگ کی بعد ازاں وہاں کمانڈوز اتارے گئے۔
۔۔۔میری بیٹی کو بے رحمی سے قتل کیا گیا،مجھے انصاف چاہیے، والدکی پریس کانفرنس
بلوچستان کے علاقے کوہلوکے رہائشی محمد نواز پیردادانی مری نے کوہلو پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 14 مئی 2022 صبح 8 بجے بمقام چمالنگ گڈ پشت کے علاقے میں ملزمان توکل ولد میرا خان، قادر خان ولد عبداللہ، بہار خان ولد فقیر خان اقوام پیردادانی نے میری بیٹی مسمات نبیو کی گلہ دبا کر انہیں بڑے بے دردی سے قتل کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب میں اپنے بچوں کے ساتھ اپنی بیٹی کی آخری دیدار کرنے کیلئے گیا تو مجھے اپنی بیٹی کی دیدار نہیں کرنے دی گئی۔ بتایا گیا کہ آپ کے بیٹی کو چمالنگ گڈ دف قبرستان میں دفنایا گیا ہے۔تم واپس چلے جاؤ،یہاں اب آپ کا کوئی کام نہیں ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے علاقے نوکنڈی کے نواحی علاقے کوہ سلطان کے مقام پرایک نامعلوم شخص کی لاش برآمد کرلی گئی ہے۔جسکی شناخت نہ ہو سکی۔

24 مئی
۔۔۔بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے چھ ماہ قبل پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے پانچ افراد منظر عام پر آگئے۔
منظر عام پہ آنے والے نوجوانوں کو خاران اور چمن میں پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔خاران میں پولیس کے حوالے کیے جانے والے نوجوانوں کی شناخت ہارون ولید ولد حاجی نثاراحمد سرپرہ، سدیس احمد ولد حاجی نثاراحمد سرپرہ، محمد عاقب ولدحاجی نوراللہ ناموں سے ہوئی ہے۔کردگاپ سے تعلق رکھنے والے دو اور لاپتہ نوجوان منظر عام پر آگئے ہیں جن میں چار ماہ قبل لاپتہ ہونے ثاقب زیب سرپرہ ولد حاجی نثار سرپرہ اور فرہاد سرپرہ ولد حاجی نوراللہ شامل ہیں جو ابھی چمن پولیس کی تحویل میں میں۔
۔۔۔کراچی: پریس کلب سامنے آمنہ بلوچ اور ندا کرمانی سمیت 4خواتین گرفتارولاپتہ کر دیا گیا۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے مرکزی شہرکراچی میں کراچی میں پریس کلب کے باہر بلوچ لاپتہ افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کرنے پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر آمنہ بلوچ اور انسانی حقوق کی کارکن پروفیسر ندا کرمانی سمیت چار بلوچ خواتین اور دو سیاسی کارکنوں کو سندھ پولیس نے گرفتار کرلیا۔
۔۔کراچی پریس کلب کے سامنے تین بجے پولیس نے گرفتار بلوچ خواتین اور بلوچ نوجوان کو رہا کردیا۔واضح رہے کہ گرفتار ہونے والی خواتین میں چھ سال سے لاپتہ شبیر بلوچ کی بیوی زرینہ اور چھوٹی بہن شبانہ، انسانی حقوق کی کارکن پروفیسر ندا کرمانی، آمنہ بلوچ جو کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر ہیں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

25 مئی
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے کولواہ بلور میں گذشتہ شب پاکستانی سیکورٹی فورسز نے فوجی جارحیت کے دوران ایک شخص کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔لاپتہ ہونے والے نوجوان کی شناخت الطاف ولد دلمراد کے نام سے ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق فوجی جارحیت کے دوران فورسز کے مرد اہلکاروں کے علاوہ خواتین اہلکار بھی شامل تھے جنہوں نے خواتین و بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور گھروں سے قیمتی سامان کا صفایا کردیا ہے۔

26 مئی
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے فورسز نے دو افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا ہے۔تربت سے لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کی شناخت ابرار ولد امام اور کریم جان ولد فضل کے ناموں سے ہوئی ہے جو عطائشاد ڈگری کالج تربت طالب ہیں۔

27 مئی
۔۔۔پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ و پشتون اسٹوڈنٹس کیخلاف کریک ڈاؤن، 25 طلبہ گرفتار
پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ و پشتون طلبہ پر تشدد کیخلاف پولیس کے کریک ڈاؤن میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے چیئرمین احسان بلوچ اور چیئرمین پشتون ایجوکیشن ڈویلپمنٹ کے چیئرمین ریاض خان 25 ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیے گئے۔
پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان کی جانب سے بلوچ اور پشتون طلبہ پر تشدد اور فائرنگ کی گئی جس میں متعدد طلبہ زخمی ہوئے۔اس کے بعد پولیس نے ہاسٹلوں میں بلوچ اور پشتون طلبہ کیخلاف کریک ڈاؤن کیا۔ جس کے بعد چیئرمین احسان بلوچ اور چیئرمین ریاض خان سمیت 25 دیگر طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔ جنہیں لاہور کے مختلف حوالات میں قید کیا گیا ہے۔واقعہ کیخلاف اور اپنے ساتھیوں کی رہائی کیلئے پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ کی جانب سے احتجاجی دھرنا۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تجابان میں آبادی پر پاکستانی فورسز کی جانب سے گولہ باری اور فائرنگ سے تنگ علاقہ مکینوں نے احتجاجاً سی پیک روڈ کو بند کردیا ہے۔علاقہ مکینوں کے مطابق تجابان کے علاوہ تربت کے ہر چھوٹے بڑے گاؤں میں فورسز کے کیمپ آبادیوں میں واقع ہیں جن کی وجہ سے آئے روز غریب عوام کوذہنی کوفت اورمالی نقصان کا سامنا ہے۔تجابان میں آبادیوں پر گولہ باری اور فائرنگ کیخلاف علاقہ مکین دو دنوں سے سی پیک روڈ پر احتجاجاً دھرنادیکر بلاک کئے ہوئے ہیں جس سے آمدو رفت مکمل طور پر بند ہے۔احتجاجی مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ فورسز کو آبادیوں سے فوری طور پر باہر نکالا جائے۔
۔۔۔نیو کاہان مری کیمپ سے فورسز نے ھب چوکی کے رہائشی دوست محمد مری ولد فرس خان،اسماعیل ولد کریم خان مری کو حراست بعد لاپتہ کیا۔

28 مئی
۔۔۔بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ کے لک پاس کے مقام پر سیکورٹی فورسزکی ناروارویے کیخلاف عوامی وکاروباری حلقوں میں کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
عوامی و کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کے نواحی علاقے لک پاس کے مقام پر قائم سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ عوام بالخصوص تاجروں و ٹرانسپورٹروں کیلئے وبال جان بن گئی ہے۔ جو اختیارات نہ ہونے کے باوجود کوئٹہ سے اندرون بلوچستان جانے والی اشیائے خورونوش روک کر واپس کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے رخشان، مکران اور قلات ڈویژن میں اشیائے خورونوش کی قلت پیدا ہونے لگی ہے۔
۔۔۔بلوچستان کے ضلع پنجگور سے پاکستانی فورسز نے دو افراد کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔لاپتہ کئے گئے افراد کو فورسز نے پنجگور کے مرکزی علاقے چتکان اور تحصیل پروم سے حراست میں لیا ہے۔ گذشتہ شب فورسز نے پنجگور کے علاقے چتکان غریب میں ایک گھر پر چھاپہ مارکر ایک شخص کو حراست میں لے نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔لاپتہ ہونے والا نوجوان کی شناخت محمد الیاس ولد گل محمد کے نام سے ہوئی ہے۔
تحصیل پروم کے رہائشی نے عبدالرحمن بلوچ سکنہ پروم گیشتی کو فورسز نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے جو تاحال لاپتہ ہیں۔

29 مئی
۔۔۔بلوچستان کے علاقے خاران سے پاکستانی فورسز نے دو افراد کو جبراً حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔لاپتہ ہونے والے افراد کی شناخت حبیب جہنگو اور انضمام زہری کے ناموں سے ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق فورسز نے گزشتہ رات خاران شہر میں سرچ آپریشن کرتے ہوئے خاران بابو ابراہیم مسجد کے قریب سے حبیب جہنگو کو ان کے گھر سے حراست میں لیا اور دریں اثنا خاران شہر میں قلعہ سکول کے قریب رہائش پذیر انضمام زہری کو بھی حراست میں لیا اور دونوں افراد کو نامعلوم مقامات پر منتقل کردیا۔علاقائی ذرائع کے مطابق حبیب جہنگو پیشے سے فٹبالر جبکہ انضمام زہری طالب علم ہیں۔

30 مئی
۔۔۔ ضلع پنجگور کے علاقے گچک سے دو دن قبل بازیاب ہونے والے عبدالرحمان کو ایک بار پھر پاکستانی سیکورٹی فورسزنے حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔
یاد رہے کہ عبدالرحمان کو دو خواتین شاہ بی بی، شہزادی اور کمسن بچہ، عبدالرحمان کے بیٹے عبدالحق سمیت گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا
گیا تھا۔

31 مئی
۔۔۔ خاران کے علاقے لجے توک کے رہائشی ولی محمد ولد محمد حنیف سمالانی کو پاکستانی فورسز فرنٹیئر کور اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا،علاقائی ذرائع کے مطابق مذکورہ شخص کو 28 مئی کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ لجے میں زمینداری میں مصروف تھا۔
۔۔۔ کراچی سے دو افراد کو پاکستانی فورسز نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا۔ 27 مئی کو محکمہ فشری میں دوران ڈیوٹی سی ٹی ڈی اہلکاروں نے زبیر ولد مولا بخش سکنہ ماری پور ٹیکری ولیج کو حراست میں لیکر لاپتہ کیا جبکہ اس سے قبل 11 مئی کو کراچی الیکٹرک کے ملازم عمران سکنہ ماری پور دلپل آباد کو بھی دوران ڈیوٹی حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔
۔۔۔سبی میں لونی گاؤں کی جانب جانے والے روڈ پر نامعلوم افراد کی سائیکل سوار پر فائرنگ کے باعث ایک شخص موقع پر ہلاک ہو گیا۔ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت دودا خان کے نام سے ہوئی ہے۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here