بلوچستان میں پاکستانی فوج، خفیہ اداروں اور اس کے لے پالک مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں، اغوا اور جنسی زیادتیوں کے کیسز میں بے پناہ اضافہ اور عالمی برادری وانسانی حقوق اداروں سمیت بلوچستان کی پارلیمانی پارٹیوں کی خاموشی سے عوامی حلقوں میں گھمبیرتا سے یہ سوال ایک خدشے کی صورت میں ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ کیا بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیاں تحریک آزادی کو روک سکتی ہیں؟
اگر چہ یہ خدشہ یا سوال اپنی جگہ پر درست ہے لیکن یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ ایسی کیا کارن پڑی ہے کہ ریاست نے فوری طور پر بلوچ خواتین و کمسن بچوں کی جبری گمشدگیوں کا آغاز کیا ہے؟12۔اپریل کو جب شاری بلوچ اپنے کمسن بچوں کی پرواہ کئے بغیراپنی تمام تر پْر آسائش و خوشحال زندگی کو ٹھوکر مارکر محض بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کی آزادی کیلئے کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ پر فدائی حملہ کرتی ہیں توریاست پاکستان یہ سوچنے پر مجبور ہوتی ہے کہ اب بلوچوں کی جدوجہد آزادی، پیکیج اورمعافی نامہ سے بہت دور نکل چکی ہے۔
شاری بلوچ کے حملے کے بعد بی ایل اے کی ذمہ داری اور پھر یہ کہنا کہ ایسے مزید فدائین کی ایک کھیپ تیار ہے تواس پر ریاست پاکستان کی سیکورٹی و تفتیشی ادارے اس نہج پر پہنچ گئے کہ اگر بلوچ جہد آزادی کو ابھی نہیں روک لیا گیا تو پھر کھبی نہیں روک پائیں گے۔کیونکہ تفتیشی ادارے اپنی تفتیش میں سیکورٹی اداروں کویہ باورکرانے میں کامیاب ہوگئے کہ بلوچ خواتین پر چونکہ سیکورٹی اداروں کا کوئی فوکس نہیں ہے اسی لئے اب انہیں ایک بڑے ہتھیار کے طور پر پیش کیا جائے گاجو پاکستان کی سلامتی کیلئے بہت بڑ اخطرہ ہے۔
پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے اندرونی ذرائع کے مطابق بلوچ قومی تحریک آزادی کے خاتمے کیلئے ریاست کی جانب سے بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کی ایک پالیسی مرتب کی گئی ہے جس کے تحت عالمی برادری کو گمراہ کرکے بلوچ تحریک آزادی کوعالمی قوانین کی منافی اور خواتین وبچوں کو پاکستان کیخلاف ایک سلیپر سیل کے طور پر پیش کیا جائے گا۔اور اس کی بنیاد پر بلوچ خواتین پر سختی سے نظر رکھ کر ان کی جبری گمشدگیوں سمیت ان کی سرگرمیوں کاڈیٹااکھٹا کرنے اور انہیں تنگ کرنے کا آغاز کیا گیاہے۔
دوسری جانب اگر موجودہ بلوچ تحریک آزادی کا جائزہ لیا جائے توگذشتہ دو دہائیو ں سے بنا کسی بندش سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔اگرچہ اس میں نشیب و فراز آئے لیکن اس کی مقبولیت و طاقت میں کمی کے بجائے بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔تمام مسلح تنظیموں کی اتحاداور مجید بریگیڈ کی فدائین کھیپ نے دشمن اور اس کے حواریوں کی مفادات پرکھاری ضربیں لگائیں،ان کو بھاری نقصان پہنچاکران کی چیخیں نکلوا کر اپنی طاقت کومنوایاہے۔
اور اس بیچ پاکستان کی ریاستی پالیسی سازوں اور سیکورٹی اداروں نے بلوچ قومی تحریک آزادی کو گزند پہنچانے کیلئے اپنی تمام تر غیر انسانی و غیر قانونی حربے آزمائے۔ ہزروں کی تعداد میں بلوچوں کو جبراً گمشدہ کرکے اپنے ذیت گاہوں میں قید رکھنا، ان کاحراستی قتل کرنا، فوجی آپریشنز کے نام پرانسانی آبادیوں کو تاراج کرنا، لوگوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنا،ذرائع معاش کوختم کرنا،مقامی ڈیتھ اسکواڈکے ذریعے خواتین وبچوں کی اغوابرائے تاوان اور جنسی زیادتی سمیت گاؤں کے گاؤں کو نذرآتش کرنے اور ظلم و بربریت کی خونی و ننگی ناچ کے باوجود تحریک آزادی کو ایک انچ بھی پیچھے دھکیلنے میں ناکام رہے۔
اب بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کی ایک اور گھناؤنے اورجنگی جرائم کی نیا پالیسی مرتب کرکے ریاست پاکستان بلوچ قومی تحریک آزادی کو ہمیشہ کیلئے دفنانے کا عزم لئے ہوئے ہیں لیکن دوسری جانب بلوچستان میں ریاست کی اس نئی پالیسی پر عوام میں خوف کا تاثر عنقا نظر آرہا ہے۔اگر چہ بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست پر مکمل قدغن اور میڈیابلیک آؤٹ ہے لیکن جب جب لوگوں کی جبری گمشدگیوں کی کارراوئیاں سامنے آتی ہیں تو عوام سراپااحتجاج بن کر بنا کسی پارٹی کی پلیٹ فارم پرقومی شاہرائیں بلاک کرکے دھرنا دیکر بیٹھتے ہیں۔اس پر مستزاد ریاستی اداروں اور سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جبراً لاپتہ کئے گئے افراد کو عوامی پریشر کے باعث مجبوراً رہا کرنے کا چلن بھی سامنے آ رہا ہے جو ریاستی اداروں کی ناکامی اور عوامی غم و غصہ سمیت جہدآزادی کی کی کامیابی کی دلیل بھی سمجھی جارہی ہے۔
پاکستان کی ریاستی اداروں میں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی سے بلوچ تحریک آزادی کو نقصان پہنچانے کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے بلوچ آزادی پسند لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی سے دشمن پاکستانی فوج سوچ رہی ہے کہ وہ بلوچ تحریک آزادی کونقصان پہنچاسکتی ہے لیکن یہ غلط ہے۔
ان کاکہناتھا کہ سال 2010سے لیکر آج تک بسیمہ، مشکے، جھاؤ، کولواہ، رخشان، گچک، سولیر، کیلکور، بالگتراور آواران، ڈیرہ بگٹی،دیگرعلاقوں سے روزانہ کی بنیاد پر اس درندہ فوج نے ایسی حرکتیں کی ہیں لیکن بلوچ آزادی پسند پہاڑ کی طرح ڈھٹے اور کھڑے ہیں۔
٭٭٭