گلگت بلتستان کو شناخت وقومی سوال سے محرومی کاسامنا

0
406

سنگرخصوصی رپورٹ

پاکستان کے زیر قبضہ گلگت بلتستان کوان دنوں اپنی شناخت اورقومی سوال سے محرومی کا سامناہے۔ عوام میں ایک شدید احساس محرومی پایا جارہاہے ۔ہماری ریسرچ کے مطابق اس احساس ِ محرومی کاجنم سوشل میڈیا کی گلوبل ولیج سے ارتباط کی صورت وقوع پذیرہواجوعوامی آگہی کا وجہ بنااور آہستہ آہستہ اپنی تشخص و قومی سوال کے نقطے پر منتہج ہوا۔

گلگت بلتستان جو پاکستانی قبضہ کی وجہ سے نہ صرف اپنی قومی شناخت سے محروم ہے بلکہ عوام کو بنیادی مسائل میں اتنا الجھایا گیا ہے کہ وہ اپنے قومی شناخت کے سوال سے کوسوں دور ہے۔ گذشتہ پندرہ سالوں سے جی بی میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے۔موجودہ پیدا کردہ معاشی مسائل جن میں عوام کو الجھا کر ان کو قومی شناخت سے دور رکھنے کے ساتھ ان کومذہبی شدت پسندی کی جانب بھی دکھیلا جا رہا ہے۔

ہمارے سروے کے مطابق گلگت کا عوام پاکستان سے سخت نالاں ہے ، انہیںاسلام آباد کے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں سمیت پاکستان کی میڈیاسے سخت شکایتیںہیں کہ گلگت بلتستان کے اہم عوامی مسائل کھبی بھی رپورٹ نہیں کئے جاتے لیکن دوسری جانب پنجاب میں ایک گائےکے دو بچھڑوں کے جنم دینےپر بریکنگ نیوز چلائے جاتے ہیں۔اور گلگت بلتستان کے عوام منفی بیس سینٹی گریڈ میں ہفتے یا مہینے دھرنے دیں تو ٹریکر تک نہیں چلائے جاتے۔

یوں تو گلگت بلتستان کے بہت سارے مسائل ہیں مگر قدرتی وسائل پر قبضے ، گندم کوٹہ میں کٹوتی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ، ناجائز ٹیکسز کے نفاذ اور بد ترین لوڈ شیڈنگ اس وقت کے اہم ترین ایشوز ہیں۔ وافر مقدار میں پانی موجود ہونے کے باوجود اس وقت جی بی میں بائیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے۔لوگ تیس سالوں سے شتونگ نالہ منصوبہ ، شغر تھنگ ہرپوہ غواڑی ہینزل پاؤر پراجیکٹ کے نام سن سن کر تنگ آ چکے ہیں مگر کسی ایک منصوبہ پر کام شروع نہیں کیا جا رہا ہے ۔ مخصوص افراد کو نوازنے کے لیے ڈیزل جنریٹر اور تھرمل پاور پلانٹ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔

گلگت بلتستان میں اس وقت غذائی بحران ہے۔ ایک ایک کلو آٹا کے لئے خواتین اور بچے کوکئی دن سیل پوائنٹس پر لائنوں میں رہنا پڑتا ہے ۔اور دوسری جانب گلگت بلتستان میں ابھی تک کوئی ایک میڈیکل یا انجینرنگ کالج نہیں ہے ۔ بلتستان کے چار اضلاع کا واحد ہسپتال ایم آر آئی مشین اور ای این ٹی ڈاکٹر سے محروم ہے۔ تمام اضلاع میں کوئی لیڈی ڈاکٹر یا گائنی کالوجسٹ ڈاکٹر موجود نہیں ہے مگر صرف بلتستان ریجن میں سترہ اسسٹنٹ کمشنر کروڑوں روپے کی گاڑیوں اور مراعات کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہیں۔

عوام کا مطالبہ ہے کہ جی بی میں ا سٹیٹ سبجیکٹ رول بحال کرکے وسائل پر قبضے کا خاتمہ کیا جائے۔ گندم کوٹہ میں کٹوتی، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ،ناجائز ٹیکسز کے نفاذ، بد ترین لوڈ شیڈنگ اور قدرتی وسائل پر قبضہ ختم کیا جائے۔

عوامی حلقوںکا کہنا ہے کہ ہمیںڈاکٹرز ، لیکچررز ، اساتذہ ، تعلیم و صحت کی سہولیات ، بجلی ، صاف پانی کشادہ روڈز چاہیئے مگر اسلام آباد ہمیں اسسٹنٹ کمشنر اور اے ایس پی بھیج رہے ہیں۔ان حلقوں کاکہنا ہے کہ گلگت بلتستان کا کوئی پڑھا لکھا شخص چیف سیکریٹری ، آئی جی ، ہوم سیکرٹری ، سیکریٹری پلاننگ ، سیکریٹری فنانس اور اعلی عدلیہ کا جج نہیں بن سکتے ہیں ۔

گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے یہاں شیڈول فورتھ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ ہے ۔ گلگت بلتستان میں بینکنگ کورٹ ہے اے ٹی اے کورٹ ہے مگر لیبر کورٹ فیملی کورٹ انٹی نارکوٹکس کورٹ نہیں ہے۔

واگہ بارڈر ، سرکریک بارڈرز ، مظفر آباد ، یہاں تک سکھوں کے لیے کرتال پورہ راہداری کھول دیا گیا ہے مگر گلگت بلتستان کے منقسم خاندانوں کو ملانے والی کارگل سکردو ٹیاقشی خپلو استور ، گلتری سمیت تمام قدیمی راستے بند ہیں۔

عوام کا ماننا ہے کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے یہاں اسلام آباد کی سیاسی جماعتوں کا وجود بھی غیر قانونی ہے ۔گلگت بلتستان کے مقامی جماعتوں اور افراد کو غدار قرار دینے کی بجائے انہیں آزادانہ نقل و حمل کی اجازت دیا جائے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام اپنے فیصلے خود کرنے میں آزاد ہو۔گلگت بلتستان کے فیصلے وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان کرتے ہیں جس کو نہ یہاں کے عوام نے ووٹ دیتے ہیں اور نہ کو ووٹوں کی ضرورت ہے۔

پاکستانی کی اشرافیہ گلگت بلتستان کے چاروں اطراف سے زمینوں پر قبضہ کر رہی ہے۔ شندور ، بابوسر ، تھور چلاس اور قرمبر جھیل اشکومن پر قبضے کا سلسلہ جاری ہے۔بیوروکریسی اس قدر طاقتور اورمضبوط ہے کہ ایک وزیر اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف پریس کانفرنس کر سکتا ہے لیکن اس کا تبادلہ نہیں کرنے کااختیار نہیں رکھتا۔ یہاں مقامی افراد کے تعمیرات کو راتوں رات مسمار کردیا جاتاہے لیکن غیر مقامی افراد کو بڑے بڑے ہوٹلز اور دیگر تعمیرات کے لیے انتظامیہ سہولیات فراہم کرتی ہے ۔

گلگت بلتستان کو ریلیز نہ ملنے کی وجہ سے ٹھیکدار برادری سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔گلگت بلتستان کے بہت سارے حق پرستوں پہ شیڈول فورتھ لگاکر انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے ۔

بجلی و پانی کی لوڈ شیڈنگ سے دنیا تو واقف ہوگی لیکن جی بی واحد خطہ ہے یہاں کے لوگوں کوموبائل فون سگنل اورانٹر نیٹ کی لوشیڈنگ کا بھی سامنا ہے۔

عوامی حلقوں کا کہان ہے کہ گلگت سکردو روڈ پر این ایل سی کا قبضہ ہے اور سی پیک سے گلگت بلتستان کی شناخت کو خطرہ ہے۔علاقے کے تمام پی ڈی ڈی سی موٹلز چار سالوں سے بند اور سینکڑوں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں ۔جی بی میں ایف سی اور رینجرز کا کوئی کام نہیں ہے ۔ایف سی جنگلات کے کٹائی اور سمگلنگ میں ملوث ہے ۔

عوام کا مطالبہ ہے کہ دیامر ڈیم پر مقامی افراد کوبھرتی کیا جائے اور مسنگ چولہا پیکج کے تحت جلد از جلد معاوضہ ادا کیا جائے ۔ ہنزہ نگر کے روڈ متاثرین کو معاوضہ دیا جائے ۔

گلگت بلتستان کے عوام کو سی پیک سے اپنی قومی شناخت کو شدید خطرات کے خدشے کا بھی سامنا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here