انسانی حقوق کے عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے ٹوئٹر پر ’ریاست پر تنقید‘ کرنے پر گرفتار کیے گئے 8 افراد کو فوری طور پر رہا کریں۔
جنوبی ایشیا کے لیے انسانی حقوق کی تنظیم کی ڈائریکٹر ڈنوشیکا ڈسانائیکے نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکام کو ایسے لوگوں کو سزا دینے کے لیے ڈریکونین پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کا استعمال بند کرنا چاہیے جو صرف آن لائن اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق کا استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ طویل عرصے سے حکومتیں پرامن اختلاف رائے کو کچلنے اور سیاسی مخالف جماعتوں کے حامیوں کو ڈرانے کے لیے اس قانون کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
ڈنوشیکا ڈسانائیکے نے حکومت سے پنجاب بھر میں گرفتار کیے گئے 8 افراد کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اختلافی آوازوں کو دبانے کے بجائے حکام کو آزادی اظہار کے حق پر اپنا سخت کریک ڈاؤن ختم کرنا چاہیے۔
اس ہفتے کے شروع میں ایف آئی اے نے سوشل میڈیا کے ان صارفین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جن کے بارے میں خیال تھا کہ وہ اداروں، خاص طور پر فوج کے خلاف ‘ غلیظ مہم’ میں ملوث ہیں جبکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے سبکدوش کیا گیا تھا۔
گزشتہ اتوار سے ٹوئٹر پر سب سے زیادہ ٹرینڈنگ والے ہیش ٹیگز تھے جن میں فوج، عدلیہ اور نئی حکومت کو نشانہ بنایا گیا تھا اور منگل کو ان ہیش ٹیگز کو استعمال کرنے والی ٹویٹس کی تعداد 43 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ہم نے فوج اور عدلیہ کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلانے کے الزام کے سلسلے میں لاہور، ملتان، فیصل آباد اور گجرات سمیت پنجاب کے مختلف حصوں سے تقریباً 8 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ گرفتاریوں کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔
دوسری جانب گزشتہ روز انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے ایک پریس کانفرنس کے درران فوج پر تنقید کی مذمت کرتے ہوئے اسے ”بد نیتی پر مبنی پروپیگنڈا قرار دیا تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ریاستی اداروں کے خلاف کیا جانے والا تمام پروپیگنڈا غیر ملکی لنکس اور جعلی آئی ڈیز کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔