شہدائے مرگاپ نے ہمیں جہدِ آزادی کا راستہ دکھایا، بی این ایم کی پمفلٹ جاری

0
360

بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے شہدائے مرگاپ کے دن کے مناسبت سے ایک ہمفلٹ جاری کیا گیا ہے۔جس میں کہاگیا ہے کہ شہدائے مرگاپ نے اپنے قول و فعل پر عمل کرکے ہمیں جہدِ آزادی کا راستہ دکھایا۔

پمفلٹ میں کہا گیاکہ فرد انسانی برادری کا محض ایک اکائی ہے لیکن یہی فرد جب ایک خاص ذہنی بلوغت کا ارتقائی سفر طے کرکے شخصیت کا روپ دھارتا ہے تو وہ سماج پر گہرے اثرات مرتب کرنے کی قوت بھی پالیتا ہے۔ جب شخصیت کا مطمع نظر قومی تشخص، قومی بقا، اور قومی آزادی ہو تو وہ پورے قومی نفسیات پر گہرے نقوش ثبت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ بلاشبہ شہید چیئرمین غلام محمد وہ شخصیت تھے جو بلوچ قومی زندگی اور قومی تاریخ کو نیا رخ، اور نئی جہت دینے میں کامیاب رہے۔ بے شک غلام محمد بلوچ کی تعلیمات اور انتھک جدوجہد صدیوں تک بلوچ قومی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔

غلامی کی زندگی بدنما اور بدصورت ہوتی ہے۔ غلامی کے خلاف قوم کو اجتماعی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ تاہم اجتماع کو جدوجہد کی راہ دکھانے والے کچھ افراد ہوتے ہیں۔ وہی افراد ہی قوم کو قومی مستقبل کا تعین کرنے کے لئے جدوجہد کا درس دے کر ایک نئی زندگی عطا کرتے ہیں۔ بلاشبہ اس فہرست میں چیئرمین غلام محمد کا نام نمایاں ہے۔

انگریزوں کے قبضے سے لے کر پاکستانی قبضے تک بلوچستان میں متعدد ایسی شخصیات نے جنم لیا جن کی نظر میں قومی بقا کے لئے قومی آزادی ہی پائیدار ترقی و خوشحالی کا ضامن ہے اور قومی آزادی کے بغیر قومی وجود ممکن ہی نہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ نواب محراب خان، بالاچ مری، بلوچ خان نوشیروانی، اکبر خان، ڈاکٹرمنان بلوچ، اسلم بلوچ، رضا جہانگیر، غلام محمد، لالہ منیر، شیر محمد بلوچ سمیت تمام شہدا کا لہو بلوچستان کو غلامی کے دلدل سے نکالنے کے لئے بہا۔

ان تمام شہدا نے بلوچ قوم کو سراب سے نکال کر ایک حقیقی زندگی کے حصول کے لئے جدوجہد کی راہ دکھائی۔ آج ہم ایسے ہی کرداروں میں ”شہدائے مرگاپ“ کو یاد کررہے ہیں جو قابض کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان بلوچ رہنماؤں کو بلوچ قومی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔

نواب اکبر خان بگٹی اور بالاچ مری کی شہادت کے بعد بلوچستان بھر میں قومی تحریک کو فعال کرنے، عوام کی سیاسی تربیت، عوام میں ڈر و خوف کو ختم کرنے میں شہدائے مرگاپ نے اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے سامراجی طاقتوں کو باور کرایا کہ بلوچ قوم آزادی کے سفر میں شہادتوں اور قربانیوں کے لیے تیار ہے اور بلوچ وطن کے دفاع کے لیے ہر مصیبت کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

یہ چیئرمین غلام محمد تھے جنہوں نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ یہ جدوجہد ہم نے شروع کی ہے اور ہم آزادی کے حصول تک اسے برقرار رکھیں گے۔ یہ جدوجہد لہو کا خراج مانگتی ہے اور ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک یہ جنگ لڑتے رہیں گے۔

شہدائے مرگاپ نے اپنے قول و فعل پر عمل کرکے ہمیں جہدِ آزادی کا راستہ دکھایا۔ ہمیں نہ صرف ان کی شہادت کے دن پروگرامز منعقد کرکے انہیں یاد کرنا چاہئے بلکہ یہ عہد بھی کرنا ہوگا کہ ان کا منتخب کردہ راستہ ہی ہمارے نجات کا راستہ ہے۔ پاکستان نے چیئرمین غلام محمد، لالہ منیر، اور شیر محمد کو شہید کرکے یہ سمجھا کہ اب جدوجہد ختم ہوجائے گی لیکن قابض ریاست فراموش کرچکی ہے کہ غلام محمد اور شہدائے مرگاپ کی آواز آج بھی بلوچستان بھر میں گونج رہی ہے۔ آج بھی ان کے ساتھی ان کی راہ پر چل کر جدوجہد کررہے ہیں۔ شہید کبھی مرتے نہیں بلکہ امر ہوجاتے ہیں۔ آج شہدائے مرگاپ اپنے جدوجہد اور عمل سے ہر بلوچ کے دل میں زندہ ہیں اور تا ابد زندہ رہیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here