بھارتی حکومت نے سکیورٹی کے خطرات کے پیش نظر چین کی مزید 54 ایپس پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارت کی جانب سے یہ تازہ ترین اقدامات دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کے عکاس ہیں۔
بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک کی وزارت نے پیر کے روز چین کی مزید 54 ایپس پر پابندی کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ، ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں‘۔ اس طرح چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے آغاز سے بھارت اب تک تقریبا تین سو چینی ایپس پر پابندی عائد کر چکا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک کی وزارت نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”یہ 54 ایپس مبینہ طور پر پہلے مختلف طرح کے اہم اجازت نامے حاصل کرتی ہیں اور پھر صارفین کا حساس ڈیٹا جمع کرتی ہیں۔ اس جمع کیے گئے ریئل ٹائم ڈیٹا کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اور اسے دشمن ملک میں واقع سرورز پر منتقل کیا جا رہا ہے۔”
حکومت نے اپنے بیان میں مزید کہا، ”اس کے علاوہ بھی دیگر سنگین خدشات ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ ایپس کیمرہ/مائیک کے ذریعے جاسوسی اور نگرانی کی سرگرمیاں بھی انجام دے سکتی ہیں۔ یہ فائن لوکیشن (جی پی ایس) تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں اور بدنیتی پر مبنی نیٹ ورک جیسی سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔”
بیان کے مطابق، ”یہ ایپس مبینہ طور پر ملک کی خود مختاری اور سالمیت کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو ریاست کی سلامتی اور بھارتی دفاع کے لیے بھی سنگین خطرہ ہیں۔”
بھارتی حکومت نے جن ایپس پر پابندی کا تازہ ترین فیصلہ کیا ہے، اس میں ‘علی بابا’، ‘سویٹ سیلفی ایچ ڈی’، ‘بیوٹی کیمرا’، ‘سیلفی کیمرہ’، ‘گیرینا فری فائر’، ‘الیومیناتے’، ‘ویوا ویڈیو ایڈیٹر’، ‘ٹینسینٹ ایکس ریور’، ‘اونمائیوجی ایرینا’، ‘ایپ لاک’ اور ‘ڈوئل اسپیس لائٹ’ سمیت درجنوں مقبول و معروف ایپس شامل ہیں۔
بھارت نے گزشتہ برس جون میں بھی 59 چینی موبائل ایپلی کیشنز پر پابندی لگا دی تھی، جس میں سے سوشل میڈیا پر بہت ہی مقبول ٹک ٹاک، وی چیٹ اور ہیلو جیسی ایپس بھی شامل تھیں۔ اس وقت بھی بھارتی حکومت نے ان تمام ایپس کو ملک کی خود مختاری اور سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔
وزارت داخلہ نے اس حوالے سے جو اپنی رپورٹ شیئر کی ہے، اس کے مطابق جو ایپس پابندی سے متاثر ہوں گی ان میں سے بہت سی وہ پرانی ایپس بھی ہیں جو نئے ناموں سے متعارف کی گئیں یا پھر انہیں دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ان سب سے رازداری کے مسائل کا سامنا ہے اور یہ سیکورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔
بھارت کی جانب سے یہ تازہ ترین اقدامات دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کے عکاس ہیں، جس کی وجہ دونوں ممالک میں ایک طویل سرحدی تنازعہ بھی ہے۔ بھارت نے اس سلسلے میں پہلی پابندی جون 2020 میں لگائی تھی جب مشرقی لداخ کی وادی گالوان میں چینی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ میں بھارت کے 20 ہلاک ہو گئے تھے۔
اس وقت سے اب بھی دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی سرحد پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہیں اور خاص طور بھارت نے کئی بار اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کشیدگی کے خاتمے کے لیے فریقین میں بات چیت کے کئی ادواربھی ہوئے، تاہم کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے۔
گزشتہ ہفتے امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت پر مشتمل گروپ (کواڈ) کی کینبرا میں میٹنگ تھی اور اس دوران بھی بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے چین پر سرحدی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔
جمعے کے روز انہوں نے کواڈ کی میٹنگ میں اس معاملے ہونے والی بات چیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ”ہاں ہم نے (لائن آف ایکچوئل کنٹرول سے متعلق) بھارت اور چین کے تعلقات پر بات چیت کی کیونکہ یہ اس میٹنگ کا ایک اہم حصہ تھا، تاکہ ہمارے پڑوس میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے بارے میں ہم ایک دوسرے کو آگاہ کر سکیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں بہت سے ممالک جائز طور پر دلچسپی لیتے ہیں، خاص طور پر اگر ان کا تعلق ہند-بحرالکاہل کے علاقے سے ہے اور چونکہ چین نے ہمارے ساتھ سرحد پر فوج جمع نہ کرنے کے تحریری معاہدوں کو 2020 میں نظر انداز کر دیا، اس لیے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔
بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہے۔
ایل او سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ ایک سال سے بھی زائد عرصے سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پندرہ جون 2020 کو رات گئے مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں بھارت کے کم از کم بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔