افغانستان: طالبان کا اپنے صفوں میں ہزاروں استحصالی ارکان کو نکالنے کا دعویٰ

0
208

افغانستان میں حکمران طالبان تحریک نے دعویٰ کیا ہے اس نے اپنے تقریباً تین ہزار ارکان کو ناجائز اور استحصالی اقدامات کے باعث سزا کے طور پر اپنی صفوں سے نکال دیا ہے۔

یہ بات افغانستان میں طالبان حکومت کے وزارت دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتائی ہے۔

ایک سرکردہ حکومتی اہلکار کے مطابق ایسا طالبان کے گزشتہ برس موسم گرما میں اقتدار میں آنے کے بعد شروع کیے گئے جواب دہی کے ملک گیر عمل کے دوران کیا گیا۔

کابل میں افغان وزارت دفاع کے ایک پینل کے سربراہ لطیف اللہ حکیمی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مجموعی طور پر 2840 ارکان کو طالبان تحریک سے نکالا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ افراد افغانستان میں اسلامی حکومت کا نام بدنام کر رہے تھے اور طالبان کی اپنی صفوں میں صفائی کے اس عمل کا مقصد مستقبل میں بہتر فوج اور مؤثر پولیس کی تشکیل ہے۔

طالبان نے افغانستان سے امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی دستوں کے حتمی انخلا کے بعد پاکستانی فوج کی کمک اوراسلحہ کے زور پرکابل پر قبضہ کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔ اس موقع پر گزشتہ برس اگست میں ملک میں نئی طالبان انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے 1996ء سے لے کر 2001ء تک جاری رہنے والے پہلے دور اقتدار کے مقابلے میں اپنے طرز حکومت میں نرمی لائے گی۔

تقریباًاسی وقت طالبان کی حکومت نے ایک ایسا کمیشن بھی قائم کر دیا تھا، جس کا کام اس تحریک کے ایسے ارکان کی نشاندہی تھا، جو اس موومنٹ کے طے کردہ ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں۔

لطیف اللہ حکیمی کے مطابق اب تک اس تحریک سے سزا کے طور پر جن ہزاروں افراد کو نکالا جا چکا ہے، ان کے خلاف استحصالی رویوں، بدعنوانی میں ملوث ہونے، منشیات کے کاروبار کا حصہ ہونے اور عام شہریوں کی نجی زندگی میں مداخلت جیسے الزامات ثابت ہو گئے تھے۔

طالبان حکمرانوں کی سخت گیر پالیسیوں کے تحت خواتین نے خوف اور منفی رد عمل کی وجہ سے برقعہ پہننا شروع کر دیا ہے۔ طالبان سخت گیر اسلامی نظریات کے حامل ہیں اور ان کی حکومت میں آزادانہ یا مغربی طرز کے لباس کا تو تصور تک نہیں۔

حکیمی کے مطابق، ”ان میں سے کچھ کے تو اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے ساتھ روابط بھی تھے۔“ طالبان تحریک کے ان تین ہزار کے قریب ارکان کو زیادہ تر افغانستان کے 14 مختلف صوبوں میں تحریک کی صفوں سے خارج کیا گیا۔

حکیمی کے الفاظ میں، ”تحریک کی اپنی صفوں میں صفائی کا یہ عمل آئندہ بھی جاری رہے گا اور اس صفائی کا دائرہ دیگر افغان صوبوں تک بھی پھیلا دیا جائے گا۔“

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کا الزام ہے کہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان کے کئی شدت پسند افغانستان کے سابق سکیورٹی اہلکاروں کے ماورائے عدالت قتل کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔اورخواتین کے لئے تعلیمی ادارے بند کردیئے جبکہ انہیں سرکاری، غیر سرکاری و میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے کی ممانعت ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here