افغانستان کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ مسلح افراد نے جمعرات کو وسطی افغانستان میں شہریوں کے ایک گروپ کو ایک حملے میں ہلاک کردیا ۔
وزارت کا کہنا ہے طالبان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے یہ صوبے دائی کنڈی میں شہریوں پر ہونے والا پہلا حملہ ہے۔
داعش نے جمعرات کے روز اپنے ٹیلی گرام چینل پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
داعش کے میڈیا ونگ، اعماق نے ایک بیان میں کہا، ’’وسطی افغانستان میں خلافت کے سپاہیوں کے حملے میں پندرہ شیعہ (مسلمان) ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے۔‘‘ ا س نے فوری طور اپنے دعویٰ کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے اے ایف پی کو بتایا تھاکہ “نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے،” انہوں نے مزید کہا کہ صوبہ دائی کنڈی میں ہونے والے حملے کے بارے میں مزید تفصیلات کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
صوبے کے ایک ذرائع نے جس کی سیکورٹی وجوہات کی بنا پر شناخت نہیں کی گئی، اے ایف پی کو بتایا تھاکہ 14 افراد ہلاک اور کم از کم چار زخمی ہوئے ہیں۔
ذرئع کا کہنا تھا کہ لوگوں کا ایک گروپ عراق میں کربلا سے واپس آنے والے زائرین کے استقبال کے لیے جمع ہوا تھا۔
ذرائع کے مطابق، مقامی میڈیا ویب سائٹ طلوع نیوز نے ہلاکتوں کی تعداد 14 بتائی ہے۔
دائی کنڈی کے صوبائی دارالحکومت نیلی شہر کے ایک اسپتال کے عہدے دار نے بتایا کہ عملے کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ “انہیں مطلع کر دیا گیا ہے کہ وہ زخمیوں کو داخل کرنے اور علاج کے لیے تیار رہیں ۔”
داعش۔خراسان یا ISIS-K اسلامک اسٹیٹ تنظیم کی افغانستان میں شاخ ہے ۔ خراسان سے مراد وہ تاریخی خطہ ہے جس میں ایران ،افغانستان اور وسطی ایشیا کے کچھ حصے شامل تھے۔
داعش خراسان تاریخی طور پر شیعوں کو نشانہ بناتا رہا ہے، لیکن وہ طالبان کے بھی حریف ہیں،جو ان کی طرح سنی عقیدے کے حامل ہیں۔