کراچی: لاپتہ عبدالحمید زہری کی فیملی انکی بازیابی کیلئے وی بی ایم پی کیمپ میں احتجاج کیلئے بیٹھ گئی

0
224

سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں پریس کلب کے سامنے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے لگائے گئے کیمپ میں عبدالحمید زہری کے لواحقین دو روزہ علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے ہیں۔

اس موقع پر سعیدہ حمید نے کہا کہ میں اپنے والد عبدالحمید زہری کی باحفاظت بازیابی کیلئے اپنے فیملی کے ساتھ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں دو روزہ علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوں۔

انہوں نے ریاستی اداروں سے اپیل کی ہے کہ انکے والد کو منظر عام پر لایا جائے اور اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ سعیدہ نے کہا کہ میرے والد کو اس طرح لاپتہ کرنا اس ملک کے قانون اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں اس موقع پر انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی اپیل کی ہے کہ میرے والد کی بازیابی کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور ہمارے دکھی خاندان کی خوشیاں لوٹا دیں۔

دریں اثناء لواحقین کی جانب سے آج سماجی رابطوں کی سائٹ پر عبدالحمید زہری کی عدم بازیابی پر?#ReleaseAbdulHameedZehri? کیساتھ کمپئین چلائی جائے گی۔ لواحقین نے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے احتجاج میں شرکت کی اپیل کی ہے۔

بلوچستان کے ضلع خضدار کے تحصیل زہری کے رہائشی عبدالحمید زہری کے لواحقین کے مطابق گزشتہ سال 10 اپریل کو مقامی پولیس و سادہ کپٹروں میں مبلوس اہلکاروں نے کراچی میں انکے گھر پر دیر رات چھاپہ مار کر گھر میں موجود عبدالحمید زہری ولد شکر خان کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

لواحقین کے مطابق آج تک انہیں عبدالحمید زہری کے صحت اور زندگی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی گئی ہے۔

دریں اثناسندھ کے مرکزی شہر کراچی میں پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے شکار سیاسی کارکنوں کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کمیپ 4560دن مکمل ہوگئے۔

آج کراچی کے علاقے ملیر سے تعلق رکھنے والے سیاسی اور سماجی کارکناں سلیم بلوچ، ناصر بلوچ،الہی بخش بلوچ اور دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے کہا کہ پاکستان میں حق کی بات کرنے والوں کو ریاستی قوتوں نے اغواء کر کے تشدد کا نشانہ بناکر ہزاروں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشوں کی شکل ہمیں تحفے میں دی ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد انسانوں کی قیمتی جانوں کی ضیاع اور دنیا کی امن کو مدنظر رکھ کر اقوام متحدہ کے نام سے ایک عالمی ادارہ وجود میں لایا گیا تاکہ پوری دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے انسانی اقدار کی مزید پامالی کو روکا جاسکے اس لیے اقوام متحدہ نے تمام مسائل پر نظر رکھنے کے لیے اپنے مختلف ذیلی آرگنائزیشن وجود میں لائے اور تمام ممبر ممالک کو سختی سے ان پر عمل کرنے کا پابند کیاگیا انہی میں سے انسانی حقوق کا ادارہ بھی ہے جو اپنی منشور کے مطابق دنیا میں ہر ہونے والی غیر انسانی سلوک کے خلاف آواز بلند کریگی۔

انکا کہنا تھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلوچوں کی آواز اپنی ہی گلی میں دم توڑتی ہیکیونکہ عرصہ دراز سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کوئی خاطر خواہ ردعمل نہیں دیکھا گیا ہے حالانکہ بلوچ مختلف طریقوں سے اپنی سر زمین پر انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے أجاکر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

جلسہ، جلوس، ریلیاں مظاہرے اور ہڑتالیں عالمی اداروں کے نام لیٹرز ٹویٹر کمپین سمیت تاریخ کا ایک طویل 13سالہ علامتی بھوک ہڑتال جو آج تک جاری ہے۔

ماماقدیربلوچ نے مزید کہاکہ ٹارچر کا عالمی دن 26جون کے متعلق ہے یہ دن بھی اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے متعارف کروایا ہے سب سے پہلے 26جون 1945کو چارٹر پر جب دستخط ہوئے تو تمام ارکان کو تاکید کی گء ان کی احترام ترویج اور تر قی کے لیے سختی سے کار بند رہیں جبکہ دوسری مرتبہ 26جون 1987کو اجلاس منعقد ہوئی اس میں ٹارچر کے خلاف ٹارچر سے متاثرہ افراد سے ہمدردی اور ٹارچر کو روکنے کے لئے اور آگاہی دیدینے کے لئے 26جون کو ہرسال منانے کے لیے تجویز دی گء جوجنرل نے منظورکر لیاانسانی کے عالمی منشور میں ہے کہ کسی ملک کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی کو سزادے ان پر تشدد کرلے غیر انسانی روییے رگھے یا کسی کی تذلیل کرے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی انسانی حقوق چارٹر کو پاؤں تلے روند کر بلوچستان میں بدترین مظالم کا مرتب ہورہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here