کراچی : عبدالحمید زہری کی عدم بازیابی کیخلاف احتجاجی مظاہرہ

0
268

جبری گمشدگی کے شکار عبدالحمید زہری کے لواحقین نے ہفتے کے روز کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

عبدالحمید زہری کوگذشتہ سال دس اپریل کو کراچی میں پاکستانی سیکورٹی ایجنسیز نے حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کیا جس کی تاحال کسی قسم کی کوئی خبر نہیں ہے۔وہ بلوچستان کے علاقے ضلع خضدار کے تحصیل زہری کے رہائشی ہیں۔

سال نو کے پہلے دن لاپتہ عبدالحمید زہری کے بچوں، خواتین اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھا کر پریس کلب کراچی کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور دیگر سیاسی و سماجی رہنماء مظاہرے میں شریک رہے۔

اس موقع پر عبدالحمید زہری کی بیٹی نے کہا کہ گذشتہ سال 10 اپریل کو مقامی پولیس و سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے کراچی میں انکے گھر پر دیر رات چھاپہ مار کر گھر میں موجود عبدالحمید زہری ولد شکر خان کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ واقعہ کے بعد ہم نے مقامی پولیس و دیگر اداروں سے گھر پر بغیر کسی وارنٹ کے چھاپہ مارنے اور عبدالحمید زہری کے گرفتاری بابت رجوع کی تو مقامی پولیس نے ایسے کسی واقعے کی تردید کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج سراپا احتجاج بن گئے ہیں تاکہ ہم اپنی آواز متعلقہ اداروں تک پہنچائیں کہ لاپتہ عبدالحمید زہری کو منظر عام پر لاکر ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسے بدقسمت لوگ ہیں کہ نئے سال کی خوشیاں منانے کے بجائے یہاں سراپا احتجاج ہیں اور انصاف مانگ رہے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ میرے والد شوگر کا مریض ہے اور دوائیں لے رہا تھا۔ انکے صحت یابی سے متعلق ہمیں خدشات لاحق ہیں۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میرے والد کو بازیاب کیا جائے اور اگر وہ ریاستی اداروں کے نظر میں کسی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

اس موقع پر ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ختم نہ ہونے والا یہ سال بلوچستان کے لیے جبری گمشدگیوں، لاشیں اور ماتم کنان سال رہا اور نئی سال کی ابتدا بھی ریاست نے یہی عمل سے شروع کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بلوچستان میں انسانی بحران کی روک تھام کے لئے آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذمہ داریاں پوری طرح ادا کریں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here