مقبوضہ بلوچستان کی موجودہ صورت حال پر معروف قانون دان علی احمد کرد نے ویڈیو کانفریس میں خطاب کرتے ہوئے مقتدرہ اعلیٰ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بلوچستان کو قبضہ نہیں کرسکتے ہیں، آپ بالکل بھول جائیں کہ بلوچستان کو قبضہ کیا جاسکتا ہے، یہ طفیلی سوچ کو بھول جائیں۔
انہوں نے کہا کہ 72 سالوں سے آپ ایک علاقے پر توجہ نہیں دے سکے، کنسنٹریٹ نہیں کرسکے۔ اسکو کالونی سمجھیں ہیں اور کالونی کے طرز پہ جیسا کہ برٹش دور میں ہوتا رہا ہے سارے ہندوستان میں انگلستان سے حکومت چلائی جاتی تھی۔ اگر اُسی طریقے سے یہاں حکومت چلائیں گے تو 72 سال اور بھی گزرینگے اور اُس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہاں پہ جتنی حکومتیں آئی ہیں صرف دو حکومتیں ایک سردار عطاء اللہ خان مینگل کے 9 مہینے کی حکومت اور ایک نواب اکبر خان بگٹی کی حکومت تھی۔ اسکو آپ کہہ سکتے ہیں یا یہاں کے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حکومتیں کسی کے کنٹرول میں نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ جو اپنے سوچ کے مطابق کام کرتے کینٹ میں بیٹھے ہوئے طاقتور لوگ ہیں۔ سارے آج کے حکومت کو اور اُس سے پہلے کی حکومتوں کو کنٹرول کرتے تھے۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے کیبنٹ میٹنگ میں کور کمانڈر یا اُس کا نمائندہ بیٹھا ہوتا ہے تو اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں بلوچستان سے بولنے والے جو چند لوگ تھے انکی بھی ٹی وی چینلز پر موجودگی تھی آپ نے اس چینل کو بھی ختم کردیاہے۔
ہم اس وقت نہ چینلز پر بات کرسکتے ہیں یا کسی چیلنزپر ہمارے انٹرویو ہوتے ہیں۔ نہ اخبارات میں ہمارے بیان چھپ سکتے ہیں۔اگر آپ چاہتے ہیں لوگوں کی زبان بندی کی جائے تواُس کا نتیجہ یہ نکلے گا جو بلوچستان میں ہورہا ہے۔
میں یہ سمجھتاہوں کہ لوگوں کی ہمدردیاں مقتدر حلقے سے ختم ہوچکی ہیں۔یہ ایف سی کی چیک پوسٹیں ہیں، یہ جو بیٹھے ہوئے نام نہاد حکومت میں وزیراعلیٰ ہیں، ان کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں نہیں ہیں۔