بھارت: نریندرمودی کا متنازع زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان

0
242

انڈیا کے وزیر اعظم نریندرا مودی نے ان تین متنازع زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا ہے جن کے خلاف گذشتہ ایک سال سے ملک میں کسان احتجاج کر رہے تھے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا‘آج میں پورے ملک کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مہینے کے اواخر میں شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں ہم ان تینوں قوانین کو رد کرنے کا آئینی عمل مکمل کریں گے۔‘

واضح رہے کہ انڈیا کی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، اترپردیش، راجستھان اور کئی دیگر ریاستوں کے ہزاروں انہی قوانین کے خلاف گذشتہ ایک سال سے انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے باہر احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے تھے۔

مودی نے ان قوانین کو لانے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا‘ہماری حکومت کسانوں بالخصوص چھوٹے کسانوں کی فلاح کے لیے زرعی سیکٹر کے مفاد میں دیہی علاقوں اور غریبوں کے بہتر مستقبل کے لیے پوری نیک نیتی کے ساتھ یہ قوانین لے کر آئی تھی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ‘ہم اپنی کوششوں کے باوجود کچھ کسانوں کو ان قوانین کے بارے میں سمجھا نہیں سکے۔ زرعی ماہرین ماہر اقتصادیات اور ترقی پسند کسانوں نے بھی انہیں ان قوانین کی افادیت کے بارے میں سمجھانے کی پوری کوشش کی۔ کسانوں کے حالات بہتر کرنے کے لیے کی مہم کے طور پر یہ قوانین لائے گئے تھے۔‘

کسانوں کے ایک رہنما یوگیندر یادو نے تینوں قوانین واپس لیے جانے کے فیصلے کو‘کسانوں کی تاریخی جیت‘ قرار دیا ہے۔ انھوں ں ے کہا کہ‘اس فیصلے سے یہ واضح ہے کہ کسانوں کو اس ملک میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

کانگریس کی رہنما امبیکا سونی نے کہا کہ‘حکومت کو کسانوں کے دباؤ میں یہ فیصلہ کرنا پڑا۔ حکومت نے تو ان کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا تھا۔ یہ قوانین تو بہت پہلے واپس لیے جانے چاہیے تھے۔‘

انڈیا کے یوم جمہوریہ کے موقع پر زرعی قوانین کے خلاف ریلی اس وقت پرتشدد ہو گئی جب کسانوں نے دلی کے تاریخی لال قلعے تک پہنچنے کے لیے پولیس کی رکاوٹوں کو توڑ ڈالا۔

کسانوں کا موقف تھا کہ انڈیا کی حکومت کی جانب سے زرعی اصلاحات کے نام پر متعارف کروائے جانے والے ان قوانین کی منظوری کے بعد زراعت کے شعبے میں نجی سیکٹر کے افراد اور کمپنیوں کے داخلے کا راستہ کھل جائے گا جس سے ان کی آمدن متاثر ہو گی۔

اس احتجاج کے دوران انڈیا کی حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی کیونکہ انڈیا کے حکومتی وزرا کا یہی کہنا تھا کہ ان قوانین سے زراعت کا شعبہ ترقی کرے گا۔

وزیر اعظم نریندرا مودی کی جانب سے ان قوانین کے خاتمے کو کسانوں کی تنظیمیں ایک بڑی فتح کے طور پر دیکھ رہی ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے کے پیچھے اصل وجہ آنے والے دنوں میں پنجاب اور اتر پردیش کی ریاست میں ہونے والے انتخابات ہیں۔

ان دونوں انڈین ریاستوں میں ان کسانوں کی بڑی تعداد ہے جو ان قوانین سے خوش نہیں اور بہت سے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اسی لیے اس موقع پر انڈین حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔

مودی سرکاری نے جو تین قوانین متعارف کروائے تھے جس میں زراعت کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کا امکان بڑھ گیا تھا۔

پہلے تو دی فارمرز پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس (پروموشن اینڈ فیلیسیٹیشن) 2020 کے قانون کے مطابق کسان اے پی ایم سی یعنی ایگری کلچر پروڈیوس مارکیٹ کمیٹی کے ذریعہ مطلع شدہ منڈیوں کے باہر اپنی پیداوار دوسری ریاستوں کو ٹیکس ادا کیے بغیر فروخت کر سکتے تھے۔

دوسرا قانون تھا فارمرز اگریمنٹ آن پرائز انشورنس اینڈ فارم سروس ایکٹ 2020 (ایمپاورمنٹ اینڈ پروڈکشن)۔ اس کے مطابق کسان کانٹرکٹ فارمنگ یعنی معاہدہ کاشتکاری کر سکتے ہیں اور براہ راست اس کی مارکیٹنگ بھی کر سکتے ہیں۔

تیسرا قانون تھا سسینشیل کموڈیٹیز (امینڈمنٹ) ایکٹ 2020۔ اس میں پیداوار، ذخیرہ کرنا، اناج، دال، کھانے کے تیل اور پیاز کو غیر معمولی حالات میں فروخت کے علاوہ کنٹرول سے باہر کر دیا گیا ہے۔

حکومت کا کہنا تھا کہ نئے قانون کی مدد سے کسانوں کو مزید آپشن ملیں گے اور ان کو قیمت بھی اچھی ملے گی۔

اس کے علاوہ زرعی منڈیوں، پروسیسنگ اور بنیادی ڈھانچے میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی تاہم کسانوں کا موقف تھا کہ نئے قانون سے ان کا موجودہ تحفظ بھی ختم ہو جائے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here