ذرا سوچیے – تحریر – ڈاکٹر جلال بلوچ

0
442

گزشتہ 15، 20 برسوں سے یہ آوازیں مسلسل کانوں میں گونج رہی ہیں۔۔۔میرا بھائی لاپتہ ہوگیا۔۔۔میرا شوہر لاپتہ ہوگیا۔۔۔میرا بیٹالاپتہ ہوگیا۔۔۔میری بیٹی لاپتہ ہوگئی۔۔۔جی ہاں! یہ مختصر سا جملہ پاکستان میں بسنے والے مظلوم و محکوم اقوام کے لیے آج کرب کی علامت بن چکی ہے۔ جہاں پاکستان کے عسکری ادارے ان افراد کو جو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کررہے ہوتے ہیں انہیں جبری طور پر لاپتہ کرنے کے عمل کو وحی الٰہی سمجھتے ہیں۔ ان پندرہ، بیس سالوں میں یہ مسئلہ انسانی بحران کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ویسے تو مقبوضہ بلوچستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کا یہ گھناؤنا کھیل بعض دیگر خطوں جیسے خیبر پختونخواہ اور سندھ میں بھی بحرانی صورت اختیار کرچکا ہے لیکن اس کی جو شدت ہمیں مقبوضہ بلوچستان میں ملتی ہے شایدہی اس کائنات میں اس کی کوئی مثال موجود ہو۔ جہاں پچاس ہزار سے زائد بلوچ جن میں ایک بڑی تعداد خواتین و بچوں کی شامل ہیں، ریاست کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی، ایم آئی اور دیگر عسکری اداروں آرمی اور فرنٹیئر کور(ایف سی)کے اہلکاروں کے ہاتھوں ان عقوبت خانوں کی نذر کیے جاچکے ہیں جن کے نام سے ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔

گزشتہ دوعشروں کے دوران غالباً بلوچستان کا ایسا کوئی علاقہ نہیں جس کے مکین اس ریاستی جارحیت کا شکار نہ ہوئے ہوں۔ ظلم و بربریت کی اس داستان نے جوں ہی زور پکڑا تو، بلوچ سرزمین کے وارثوں نے دنیا کی توجہ اس انسانی بحران کی جانب مرکوز کرانے کی خاطراحتجاج کا سلسلہ شروع کیا جو ہنوز جاری ہے۔ بلوچوں کا یہ احتجاج غالباً 2006ء میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کی صورت میں شروع ہوا، جس میں خواتین و بچوں کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا اور اس کے کچھ عرصے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین نے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے اپنی الگ تنظیم ”وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز“ کے نام سے قائم کیا جو گزشتہ بارہ برسوں سے نہ صرف کوئٹہ میں احتجاج کررہی ہے بلکہ کراچی اور اسلام آبا د کے علاوہ متاثرہ خاندانوں کے افراد نے ماما قدیر بلوچ کی سربراہی میں تین ہزار کلومیٹر پیدل سفر کرنے کے علاوہ اقوام متحدہ کے صدر دفتر تک کی یاترا کیا، تاکہ دنیا اس انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔

ان کی اس جدوجہد کی وجہ سے آج”لاپتہ افراد ”کی اصطلاح سے شاید ہی کوئی بشرواقف نہ ہو، اس حوالے سے متاثرہ خاندانوں نے اس غیر فطری ریاست کے ہر در پہ دستک دی لیکن کئی سے کوئی شنوائی تو دور، بلکہ روز بروز اس عمل میں مزید شدت آرہی ہے۔ اس انسانی بحران کا ادراک مجھ جیسے کسی بھی معمولی قلم کار کے لیے ممکن نہیں، البتہ یہ کرب ہم لاپتہ کیے گئے افراد کے لواحقین کے چہروں پہ پڑھ سکتے ہیں کہ وہ اس وقت کس درد میں مبتلا ہے۔ انہیں ہم کبھی نصراللہ بنگلزئی کی صورت میں دیکھتے ہیں جو گزشتہ بیس برسوں سے ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے اپنے چچا علی اصغر بنگلزئی کی راہ دیکھ رہا ہے، کبھی سمی و مہلب، سیما و زرینہ، سارین و حانی، کبھی فرزانہ اور اس کی بوڑھی والدہ کے غمزدہ چہروں پہ اس درد و کرب کی داستان پڑھ سکتے ہیں جو ذاکر مجید کی تصویر سینے سے لگائے صدائیں دے رہی ہیں۔ آج ایک خطہ زمین مکمل طور پر خون آلود ہے، جہاں آئے روز نہ صرف وہاں کے باسیوں کوقابض ریاست کے عسکری اداروں کے اہلکار جبری طور پر لاپتہ کررہے ہیں بلکہ انہی لاپتہ افراد کوکبھی اجتماعی قبروں کی نظر کیا جارہا، کبھی لاوارث سمجھ کر گمنام قبروں میں دفنا یا جارہا ہے، تو کبھی جھوٹی انکاؤنٹر میں انہیں شہید کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں پورا سماج نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوچکا ہے اور ہر خاندان اپنی باری کا انتظار کررہا ہے کہ جلد یا بہ دیر انہیں بھی اس قہر کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اپنے بیٹے جلیل ریکی کا انتظار کرتے کرتے ماما قدیر بلوچ کو ایک روز ان کی لاش تحفتاً ملی، یہی حال شہید ثنا سنگت کی ہمشیرہ سعیدہ بلوچ کا ہوا، اس آتش نمرود سے شہید کریم جان، شہید قمبر چاکر، شہید صدیق عیدو، شہید خان محمد مری، شہید بابل جتک، شہید محمود جان، شہید حامد و لطیف جان، شہید رزاق گل، شہید رزاق بلوچ، شہید زبیر جان، شہید خلیل، شہید خدائے رحیم، شہید عبدالرسول،شہید جمال و شہید دلجان، شہید رحمت اللہ شاہین و شہید حمید شاہین، اور دیگر ہزاروں شہدا ء کے لواحقین ہوگزرے ہیں۔ نہ جانے اور کتنے خاندان ہیں جن کے پیاروں کو لاوارث سمجھ کر ایدھی والوں نے بنا ڈی این اے ٹیسٹ ریاست کے کہنے پہ تخت حانی اور نہ جانے کتنے نا معلوم قبرستانوں کی نظر کرچکے ہیں۔

ظلم کی یہ داستانیں جنہیں سُن کر بولان کی سنگلاخ چٹانیں بھی پگھل جائیں، چلتن کی چاندنی بھی نظروں سے اوجھل ہو، بحر بلوچ پہ بھی محرم کا سماں ہو، سیاہ و ماران میں شوہان گلوگیر ہوں، ہر کوچہ و گدان، شہر و دیہات بھی خموشاں ہوں۔۔۔ تو سوچیے کیسے ہوں گے و مناظر۔۔۔ اگر ان میں دوبارہ زندگی کی روح پھونکنے والی سبین کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کیا جائے، حامد میر کو لہو لہاں کیا جائے، کریمہ اور ساجد کو غرق ِ آب کیا جائے، ماما قدیر پہ روز دھونس دھمکیوں آتش برسائی جائے، ماہ رنگ کو نظرِ زندان کیا جائے، فرزانہ مجبور ہو کے دیارِ غیر میں پناہ لیں۔۔۔ تو سوچیے کیسے ہوں گے و ہ مناظر۔۔۔ہاں ذرا سوچیے۔۔۔جب سمی طفل سنی سے جہاں اس کی گڑیوں سے کھیلنے کی عمر ہو، سراپا احتجاج ہو، مہلب و علی حیدر کو یہ ہوش ہی نہ رہے کہ کمسنی نام کی بھی کوئی شئے ہوتی ہے، جب سیما بناؤ سینگار بھول جائے، وہ رنگ حنا سے عاری ہواور میراث و زرینہ کے ساتھ بھائی کا حال لینے دردرکی ٹھوکریں کھاتی رہی ہو، جب راشدحسین کی بوڑھی والدہ دلدوز آواز میں خضرِ وقت کو پکار رہی ہو۔۔۔ تو سوچیے کیسے ہوں گے وہ مناظر۔۔۔

جب زرینہ، حنیفہ اور حانی کی چیخوں سے عرش لرزرہا ہو، جب فوجی جارحیت میں ماؤں کے لخت جگر ان کے سامنے منظر سے غائب کیے جائیں، اور وہ بندوق کی بٹ کھاکے لہولہاں حالت میں یہ وحشیانہ عمل دیکھ کر غش کھا کر گررہی ہوں اور انہیں سہارا دینے والا کوئی موجود نہ ہو،تو۔۔۔سوچیے کیسے ہونگے وہ مناظر۔۔۔ انسانیت کے دعویداروں کے منہ پہ اس سے بڑا تمانچہ اور کیا ہوسکتا ہے، جب بیساکیوں کے سہارے چلنے والی مائیں اپنے فرزندوں کا انتظار کرتے کرتے داعی اجل کو لبیک کہہ دیں، ایسے مناظر دیکھنے کے لیے تو”زیوس“ کا جگر بھی کم پڑ جائے۔۔۔ ایسے مظالم جن کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی، انہیں بیان کرنا ممکن نہیں۔۔۔ لیکن ہم پھر بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔۔۔ نہیں بلکہ ماما قدیر کے ٹھکانے پہ گنتی کے چند افراد دیکھ کر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ ہم نے انسان ہی نہیں بلکہ ذی روح ہونے کا شرف بھی کھو دیا ہے۔ یہ ظلم و بربریت جسے بیان کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، تو ذرا سوچیے ان پہ کیا گزرہی ہوگی، جو بھوک و پیاس کی حالت میں لہولہاں جسم کے ساتھ ان اذیت گاہوں میں پابند سلاسل ہیں یا وہ خاندان جو اپنے پیاروں کی راہ تھک رہے ہیں، ان ماؤں اور بہنوں کے آنسوؤں کو کس طرح بیان کروں جو سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے موسموں میں تمیز کیے بغیر صدائیں دے رہی ہیں کہ کوئی انہیں اس قہر نمرود سے نجات دلائے۔

سوچیے۔۔۔سوچیے۔۔۔بس ذرا سوچیے۔۔۔شاید کہ ہمارا بشر جاگ اٹھے۔


LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here