منشیات اور ہم |علی حیدر بلوچ

0
572

چھبیس جون یوم منشیات کا عالمی دن

رات اپنی آخری حصّے میں تھی۔ چاند اپنی موجودگی کا برملا اظہار کر رہا تھا۔ ستارے بھی ڈگمگا رہے تھے. لیکن رات کے اس پہر نیند مجھ سے کُوسوں دور تھی۔ زہنی تناؤ بھی نیند میں خلل ڈالے جا رہی تھی۔ نیند آتی بھی تو کیسے؟ وطن عزیز کی آہیں اور سَسکیاں مندر کی گھنٹی کی طرح مجھے سنائی دے رہے تھے۔ نیند آتی بھی تو کیسے؟ کرپشن کا بازار گرم ہے، مائیں اور بیٹیاں پوسٹرز اٹھائے اپنے پیاروں کی راہیں تک رہی ہیں۔ چوری ڈکیتی روز کا معمول بن گئے ہیں۔ قومی شاہراہ بھوکے شیر کی مانند روز درجنوں لوگوں کو اپنا شکار بنا کر لقمہ اجل بنا رہے ہیں۔ لیکن اس بار نیند نہ آنے کی وجہ لمہ وطن میں بڑھتی ہوئی منشیات کی سپلائی ہے۔ تو بھلا نیند کہاں آتی، کیونکر آتی؟ چونکہ منشیات اپنے پنجے ہر سو اور ہر جانب بڑے تیزی اور مضبوطی سے گاڑھ رہی ہے۔ منشیات جو زہر قاتل ہے، بڑی تیزی سے لمہ وطن میں بھی پھیل رہی ہے۔ یوں کہیئے کہ اب یہ مکمل پھیل گئی ہے۔ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات، قصبے بھی اب اسکی مکمل گرفت میں ہیں۔ بوڑھے، بچے ، جوان حتیٰ کے ہر طبقہ عمر اس بیماری میں لپٹے ہوئے ہیں۔

منشیات ایک ایسا زہر ہے جو آہستہ آہستہ لوگوں کو اندر سےختم کردیتا ہے منشیات ایک ایسی لت ہے جو ایک بار لگ جائے تو آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتا اور انسان کو دستیاب نہ ہونے کی صورت میں بے سکون بنا دیتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہے اور چیخنے چلانے لگ جاتے ہیں ۔منشیات کے عادی کو کسی سے بھی صورت میں منشیات چاہیے ورنہ وہ آپے سے باہر ہو کر تمام سماجی اصولوں کو روندنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

منشیات ازل سے ہی معاشرتی تعمیر و ترقی میں خلل رہا ہے۔ اسکی وجہ سے سماج میں دن بہ دن طرح طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں جو سماج کو ایک ہی جگہ منجمند کئے دیمک کی طرح ختم کر رہی ہے۔
آج بلوچ معاشرہ بھی اس وعید کی چنگل میں پھنس چکا ہے۔ بلوچستان کا ایسا کوئی شہر یا قصبہ نہیں جہاں منشیات کی ترسیل نہیں کی جاتی ہو۔ شہروں کے ساتھ ساتھ گاؤں میں بھی نشے کے درجنوں اڈے اپنے موجودگی کا برملا اعلان کرتے دکھائیں دیتے ہیں۔ انتطامیہ بھی خواب خرگوش سوئی ہوئی ہے اور بعض اوقات ضلعی انتظامیہ سے لیکر پارلیمانی عہدیداران اِن کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ بلوچ سماج میں پھیلتا اِس زہر قاتل کو سازش کے تحت عام نوجوانوں تک رسائی کی جا رہی ہے تاکہ نوجوان نسل اپنے حقیقی مقصد سے پرے ہو کر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائے.

چونکہ نوجوان قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ قوم کے مستقبل ہوتے ہیں۔ قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور یہ سرمایہ قوم کی ترقی و زوال کا باعث بنتی ہے۔ لیکن بلوچستان میں منشیات نے اپنے پنجے اس قدر طویل اور مستحکم کئے ہیں کہ نوجوان طبقہ مکمل نشہ کا عادی بن چُکا ہے۔ جن کے ہاتھوں میں قلم اور کتابیں ہونی تھی، اب وہ نشے اور سگار کے کش سے اپنے مستقبل کو دردناک اور قہر ناک بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نشے میں دھکیلا جا رہا ہے۔ کیونکہ ہم پہلے سے ہی غربت، افلاس، تنگ دستی اور نا انصافی کے خلاف لڑ رہے ۔ اب نشے کو پھیلا کر ہمیں اور کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی کے۔ اقوال زریں ہے کہ ” کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو نوجوان نسل میں نشے کی عادت ڈال دو وہ قوم بغیر جنگ کئے فتح ہو جائے گی”۔
تو اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یکجا ہوکر اس ناسور بیماری کو ختم کریں۔ انتطامیہ کو خواب خرگوش سے بیدار ہونا پڑیگا۔ چونکہ ہمارے ہاں اب یہ رواج اور رسم بن گئی ہے کہ انتظامیہ سال میں کبھی کبھار ایک بار حرکت میں آتی ہے لیکن ان کی گرفت میں وہی لوگ آتے ہیں جو بیچارے پہلے سے ہی نشے میں زندگی تباہ کر چکے ہوتے ہیں۔ یہ نشئی چونکہ ٹہنی ہوتے ہیں۔ ان کو پکڑنے سے فرق نہیں آئے گا بلکہ جو نشے کی اسمگلنگ کرتے ہیں، وہ تنا آور درخت ہوتے ہیں۔ کہاوت ہے کہ ٹہنی کاٹنے سے درخت نہیں مرجھاتے بلکہ اور زیادہ سرسبز و شاداب ہوتے ہیں۔ درخت کو ختم کرنے کیلیے اس کے جڑ کو کاٹنا ضروری ہے۔ تو یہاں بھی یہی ہونا چاہیے نشے کے عادی افراد کو پکڑنے سے سسٹم میں فرق نہیں آئے گا بلکہ ان اسمگلروں کو پکڑنا ہوگا، انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ یہ ہمارا قومی اور انسانی فریضہ ہے۔

تو چلو آج ہم خود سے عہد کریں کہ ہم اس سماجی برائی کو روکنے کیلیے جدوجہد کریں گے اور اپنے آنے والے نسلوں کو اس دیمک سے بچائے گے۔ منشیات فروشی کی صورت میں بلوچ نسل کشی کو روکنے کی کوشش کریں گے اور قوم کے روشن چراغوں کو بجھنے سے بچائے گے تاکہ آپنے قوم کے تابناک مستقبل کو روشن کر سکیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here