رکھ قدم پھونک پھونک کر | ذوالفقار علی زلفی

0
79

بڑی طاقت اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے بے رحم فوجی حملے تک بھی جاسکتی ہے ـ جیسے اسرائیل کا غزہ پر حملہ، امریکہ کا صدام حسین کے عراق پر حملہ یا خود صدام حسین کا کردوں پر زہریلی گیسوں سے حملہ ـ انسانی تاریخ میں ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں ۔جب کسی بڑی طاقت نے اپنے پیوستہ مفادات کے تحفظ کے لئے انتہائی حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کیا ـ پاکستان نے بنگال کی آزادی تک ہر ممکن طریقے سے بنگالیوں کو کچلنے کی کوشش کی ـ۔

تلخ سہی مگر حقیقت ہے بڑی طاقت کو جارحیت سے روکنا بیشتر اوقات ناممکن ہوتا ہے تا وقتیکہ اس سے بھی کسی بڑی طاقت کے مفادات کو خطرہ نہ ہو ـ جیسے بوسنیا یا کوسوو پر جارحیت یورپ کے مفاد میں نہ تھا یا بنگال کے المیے کا مستقل حل بھارت کے مفاد میں تھا ـ۔

بڑی طاقت کی جارحیت سے جب تک کسی اور طاقت کے مفادات داؤ پر نہ لگیں چھوٹی اقوام کے کشت و خون سے نام نہاد عالمی ضمیر کبھی بھی نہیں جاگتا ـ ۔چھوٹی اقوام کے لوگ، ان کے حقوق اور دعوئوں کی کوئی اوقات نہیں ہوتی ـ ۔

پاکستان کے بھی بلوچستان میں گہرے مفادات پیوست ہیں ۔ـ عالمی امداد کی بیساکھی پر کھڑی پاکستانی معیشت کو بلوچستان میں چھپے توانائی کے ذخائر، سمندر اور دیگر خام مال کی اشد ضرورت ہے۔ ـ وہ ان کے حصول میں رکاوٹ بننے والی کسی بھی چیز کو برداشت نہیں کرسکتا ـ۔

عدم برداشت کی پاکستانی پالیسی نے بلوچستان کے سیاسی، سماجی اور قبائلی ڈھانچے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ـ تباہی و بربادی کے اس سلسلے نے ان قوتوں (ڈاکٹر مالک و اختر مینگل) کا بھی شیرازہ بکھیر دیا ہے جو پاکستان کے ساتھ کسی سمجھوتے کا امکان لے کر مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانے کی کوششوں میں جتے ہوئے تھے ۔ـ بلوچستان کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لینے کی حریصانہ پاکستانی خواہش نے پورے سماجی نظام کو تہہ و بالا کردیا ہے ـ۔

مسترد شدہ سرداروں ، ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہوں، اسمگلروں اور مذہبی شدت پسندوں کے ذریعے بنائے گئے حالیہ بندوبست سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ تمام تر فوجی آپریشنوں اور جبری گمشدگی کے سلسلے ، اجتماعی قبروں و مسخ لاشوں کے کاروبار کے باوجود پاکستانی فوج بلوچ مزاحمت کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ ـ دوسری جانب پاکستان کا بڑھتا معاشی و سیاسی بحران اور بلوچستان میں نوآبادیاتی مفادات کے تحفظ کی حریصانہ خواہش نہ صرف برقرار ہے بلکہ حالیہ فوجی بیانات سے واضح بھی نظر آتا ہے کہ فوج کشی میں مزید شدت لائی جائے گی ـ ۔

چھوٹی اقوام کے لوگ اور ان کے حقوق چوں کہ کم ترین درجے پر ہوتے ہیں اس لئے قوی امکان ہے کہ بلوچ یک جہتی کمیٹی کو بھی فنا کرنے کی پوری پوری کوشش کی جائے ۔یہ محض گپ ہے کہ نوآبادکار کے پاس پرامن قومی تحریکوں کو کچلنے کا جواز نہیں ہوتا ـ طاقت سب سے بڑا جواز ہے ـ یہ جواز سانحہ جلیانوالہ باغ یا سانحہ بابڑہ میں بھی نظر آیا اور بلوچ راجی مچی کو روکنے کی پالیسی بھی اس کا بین ثبوت ہے ـ۔

پاکستان کی فوج کو جب نیشنل پارٹی جیسی مصلحت پسند اور سمجھوتے باز جماعت قبول نہیں ہے تو وہ بھلا بلوچ یک جہتی کمیٹی کو کیسے قبول کرسکتی ہے جس کے رہنماؤں کا لب و لہجہ سخت سے سخت تر ہوتا جارہا ہے ـ۔

ہماری خواہش تو یہی ہے بلوچ یک جہتی کمیٹی اپنی رفتار اور لہجے کی تلخی کم کرکے ایسی لچک دار پالیسی بنائے جس سے کم سے کم نقصان کی قیمت پر بلوچ شہری حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے ـ جن میں سرِ فہرست جبری گم شدگی کا خاتمہ اور جبری گم شدگان کی بازیابی ہے ـ یہ خواہش بھی مگر ریت کے گھروندے بنانے جیسا ہے ـ میری اس ناامیدی کی ٹھوس وجوہات ہیں ـ ۔

پاکستانی فوج بلوچستان میں ہلکی سی مزاحمت بھی برداشت نہیں کرتی ـ اوپر نیشنل پارٹی جیسی تابعدار جماعت کی مثال دی جاچکی ہے جو اپنی لچک دار پالیسیوں کے باوجود بلوچستان کی سیاست سے جبری طور پر بے دخل کی جاچکی ہے۔ ـ بلوچ مزاحمت کو کاؤنٹر کرنے کے لئے جبری گم شدگی اور حراستی قتل پاکستان کے مہلک ترین ہتھیار ہیں۔ ـ گوکہ گزشتہ پندرہ سالوں (2009 تا حال) سے اس ہتھیار کے استعمال سے بھی وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرپائی ہے اور نہ ہی بلوچ مزاحمت کی تاریخ اور بلوچستان کے معروضی حالات کے تناظر میں کسی کامیابی کا کوئی امکان ہے لیکن اپنے پیوستہ مفادات کے تحفظ کے لئے اس پالیسی کو جاری رکھنے کے علاوہ اس کے پاس بظاہر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ـ۔ پاکستانی فوج چوں کہ عالمی سرمایہ داریت کا مقامی چوکیدار اور کرائے پر دستیاب مسلح جتھہ ہے اس لئے مستقبل قریب میں اس کا بھی کوئی امکان نہیں ہے کہ کوئی عالمی طاقت یا ادارہ انسانی حقوق کا منافقانہ نعرہ بلند کرکے اس کو اس انسانیت دشمن اقدام سے روکنے کی عملی کوشش کرے۔ ـ

سیاسی و سماجی شکست و ریخت کے شکار بلوچ سماج کا بحران نہایت ہی پیچیدہ اور گنجلک ہوچکا ہے ۔ـ پاکستان کی فوجی پالیسیوں سے یہ پیچیدگی مزید بڑھے گی اور بحران میں اضافہ ہوگا ۔ـ اس بحران کو پیدا کرنے والا نوآبادکار اس کو حل کرنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہے ۔البتہ اس کی شیطانی فطرت اپنی دھماچوکڑی سے مزید تباہیاں لانے کی پوری پوری صلاحیت رکھتی ہے ـ ۔

بلوچ مسلح قوتیں طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے نوآبادکار کو تنگ تو کرسکتی ہیں مگر اس کی فوجی طاقت پر غلبہ نہیں پاسکتیں ـ گویا فی الوقت صورت حال کے بدلنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ـ مزاحمت سے تنگ نوآبادکار اس شرارتی بچے کی طرح ہوتا ہے جسے کھلونوں کی دوکان میں بنا کسی نگرانی کے چھوڑ دیا جائے ـ ایسے میں وہ دوکان کا ستیاناس تو کرے گا ہی مگر خود کو بھی خاصا نقصان پہنچائے گا۔
ـ
گمان غالب یہی ہے جلد یا بدیر کسی بھی بہانے سے بلوچ یک جہتی کمیٹی پر وار کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ـ کمیٹی اس ممکنہ مگر یقینی حملے سے خود کو بچا کر شہری حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھا سکتی ہے مگر اس کے لئے بنیادی شرط یہی ہے کہ اس کے رہنما آزادانہ فیصلوں کی روش ڈالیں ۔ـ مہم جوئی اور بڑھک بازی سے اپنا دامن بچائیں۔ ـ غصیلے اور پرجوش ہجوم کے جذباتی نعروں کے زیرِ اثر پالیسی بنانے کی بجائے ہوش مندی سے کام لیں۔سفر طویل ہے اور زادِ راہ انتہائی قلیل ـ۔

محتاط پالیسی کے باوجود فوج کے ممکنہ حملے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔ـ صرف فوج ہی نہیں بلکہ نوآبادکار اور بلوچ تضادات سے فائدہ اٹھانے والی موقع پرست اور سدھائی ہوئی مقامی قوتوں کی بھی ہر ممکن کوشش رہے گی کہ تصادم کی نوبت آئے تاں کہ ان کی موجودگی کا جواز اور نوآبادیاتی فوج کو ان کی ضرورت کا احساس رہے ـ ۔پھر بھی سیاست ناموافق حالات کو اپنے حق میں بدلنے کا شطرنجی کھیل ہے ۔ـ یک جہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو پورے ہوش و حواس کے ساتھ یہ کھیل کھیلنا ہوگا ـ۔ ایک نظر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی تاریخ پر بھی دوڑانی چاہیے ، اس میں سیکھنے سمجھنے کو بہت کچھ ہے ـ۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here