بلوچستان اسمبلی نے 02 ستمبر 2024 کو ایک قرار داد منظور کیا ہے جس میں 26 اگست 2024 کو بی ایل اے کی جانب سے موسیٰ خیل سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں میں متعدد مقامات پر شاہراہوں کو بند کرنے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے درجنوں مسافروں کو قتل کرنے کی مذمت کی گئی ہے اور قراداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو بھی مذکورہ بالا واقعات کی مذمت نہیں کرتے وہ دہشتگردوں ( بلوچستان کی آزادی کیلئے لڑنے والے سرمچاروں کو ریاست، ریاست کی حامی جماعتیں اور ایجنٹ دہشتگرد کہتے ہیں) کے ہمدرد اور سہولت کار ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ قرار داد میں جوابی کاروائی کے طور پر 21 بلوچ فرزندوں کے قتل پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین بھی پیش کیا گیا ہے۔ قرار داد میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی کارروائیوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی تحریک کی بھی مذمت کی گئی ہے۔
یاد رہے 25 اور 26 اگست 2024 کے درمیانی شب موسیٰ خیل میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے 23 افراد کو قتل کرنے والی تنظیم کا دعویٰ ہے کہ مقتولین کو ان کی سکونت یا پنجابی قومیت کی بنیاد پر قتل نہیں کیا گیا ہے بلکہ مقتول پنجابی فوج اور انٹیلیجنس کے اہلکار اور ان کیلئے کام کرنے والے آلہ کار تھے جبکہ ریاست، ریاستی میڈیا، حکومت اور ان کے حامی حلقے مقتول افراد کو پنجابی مزدور قرار دے کر ان کے قتل کو قومی اور نسلی تعصب و نفرت کا نتیجہ کہتے ہیں۔ فریقین کے دعووں کی درست یا غلط ہونے کے بحث میں پڑے بغیر اس سارے معاملے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر ریاست اور اس کی حامیوں کے اس دعوے کو درست مان بھی لیا جائے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مقتول افراد پنجابی مزدور تھے تو ان پنجابیوں کی قتل کے ردعمل میں اس روز فوج اور سکیورٹی فورسز کے جوابی کاروائیوں میں درجن بھر بلوچ فرزندوں کے قتل کا کیا جواز ہے؟ ان بلوچ فرزندوں کے ناحق قتل کی مذمت ارکان اسمبلی، حکومت اور ان کی حامی میڈیا کیوں نہیں کرتے؟ 26 اگست کی کارروائیوں میں بی ایل اے نے تو اپنے 9 فدائیوں کے شہادت کی خبر دی تھی۔ ارکان اسمبلی، حکومت اور ان کے آقا پاکستانی جرنیل یہ کیوں نہیں بتاتے کہ 21 مقتولین میں سے ان 09 فدائیوں کو نکال کر بقیہ 12 مقتول بلوچ فرزند کون تھے، کہاں جوابی کارروائی میں قتل ہوئے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز اس دن سرمچاروں کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کرسکے تھے۔ پاکستان کی پنجابی فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز نے جن 12 بلوچ فرزندوں کو پنجابیوں کے بدلے میں قتل کیا تھا ان میں سے کئی ایک کی آنکھیں نکالی گئی تھیں جس سے اس دعوے کو مزید تقویت ملتی ہے کہ انھیں کسی جوابی کارروائی میں نہیں بلکہ حراست میں قتل کیا گیا تھا مرحوم سردار عطاء اللّہ خان مینگل نے ایک مرتبہ میاں نواز شریف کی موجودگی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پنجاب کی فوج ہے، پنجابیوں کے نقصان پر اسے غصہ آتا ہے اور پنجابیوں کیلئے اسے تکلیف ہوتی ہے۔ بلاشبہ 26 اگست 2024 کو بی ایل اے نے ایک بلوچ فوجی تنظیم کی حیثیت سے کارروائیاں کیں تو اس کے جواب میں پاکستان کی فوج نے بھی تو ایک پنجابی فوج کے طور پر ردعمل دیا۔ بدلے میں درجن بھر بلوچوں کو قتل کرکے ان کی لاشوں کو مسخ کیا، ان کی آنکھیں نکال کر غصہ اور انتقامی جذبے کا اظہار کیا۔ قابض فوج نے مرحوم سردار عطاء اللّہ خان مینگل کے بات کی سچائی ثابت کیا کہ ” یہ پاکستان کی نہیں پنجاب کی فوج ہے اسے پنجابیوں کے نقصان پر غصہ آتا ہے اور انہی کیلئے اسے تکلیف ہوتی ہے“۔ ایسے درجنوں دیگر واقتات بھی ہیں جہاں سکیورٹی فورسز اپنے پنجابی اہلکاروں، مخبروں اور حامیوں پر بلوچ سرمچاروں کے حملوں کے ردعمل میں بطور پنجابی بالکل اسی طرح کے ردعمل کا اظہار کرکے اس بات کو بار بار دہراتے اور ثابت کرتے رہے ہیں کہ بلوچ قوم اور پنجاب عرف پاکستان کے درمیان موجود قومی تضاد ایک مخاصمانہ تضاد ہے جس کا حل پاکستان کے دستوری و جغرافیائی ڈھانچہ کے اندر ممکن نہیں ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان کے نام پر یہ ملک دراصل گریٹر پنجاب ہے جس میں بلوچستان ایک مقبوضہ خطہ ہے جس پر پاکستان نے اپنے قیام کے چند مہینے بعد مارچ 1948 میں جبری قبضہ کیا تھا۔ پاکستان کے موجودہ ریاستی ڈھانچہ میں تو اب سندھ، پختونخوا، سرائیکستان، کشمیر اور گلگت- بلتستان کی حیثیت بھی محض کالونیوں کی سی ہے۔
بلوچستان کی آزادی کیلئے برسر پیکار بلوچ مسلح تنظیموں اور پاکستان فوج کے درمیان جنگ کے واقعات پر نظر ڈالنے سے یہ بات عیاں ہوتا ہے کہ جب بھی قابض پاکستانی فوج کو سرمچاروں کے ہاتھوں کہیں مار پڑتی ہے تو وہ جوابی کارروائی کے نام پر جبری لاپتہ بلوچوں، چرواہوں اور عام نہتے بلوچ شہریوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کرتی ہے اور وقوعہ سے قریبی بلوچ آبادیوں پر بلا امتیاز گولے اور گولیاں برساتی ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے ہزاروں بلوچ فرند پاکستانی فوج و سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ ہیں، ہزاروں بلوچ فرزند فوج اور سکیورٹی فورسز کی ”مارو اور پھینک دو“ کارروائیوں میں قتل کئے گئے ہیں۔ جبری گمشدہ کرنے اور زیر حراست قتل کرکے مسخ لاشیں پھینکنے کی ایسی انسانیت سوز کارروائیاں مقبوضہ بلوچستان میں آئے روز ہوتی ہیں مگر مقبوضہ بلوچستان کی حکومت اور اسمبلی کو کبھی بھی یہ توفیق اور ہمت نہیں ہوتی کہ وہ فوج اور سکیورٹی فورسز کی ایسی مجرمانہ کارروائیوں کے خلاف کوئی قرار داد زیر بحث لائیں، ان کی مذمت کریں۔
اسی طرح جب بلوچ مائیں، بہنیں اور بچیاں اپنے لاپتہ رشتہ داروں کی بازیابی کیلئے لانگ مارچ کرکے اسلام آباد گئیں تو ان کا استقبال اسلام آباد پولیس نے لاٹھی چارج، شدید سردی میں پانی کے گولوں اور گرفتاریوں سے کیا۔ جولائی 2024 میں جب گوادر میں بلوچ راجی مُچی کے نام سے اجتماع میں شرکت کیلئے بلوچ عوام نکلے تو کوئٹہ سے کراچی، دالبندین سے تلار تک ہر جاگہ فوج، پولیس، ایف سی اور سی ٹی ڈی نے سڑکیں اور شاہراہیں بند کرکے ان کا راستہ روکا، ان پر لاٹھی چارج کیا، گولیاں برسائے جس سے تین بلوچ فرزند شہید اور درجنوں زخمی ہوئے، مسافروں اور مریضوں کو مشکلات و ازیت کا سامنا کرنا پڑا مگر بے ضمیر ارکان اسمبلی اور وزراء نے سڑکیں اور شاہراہیں بلاجواز بند کرنے پر فوج اور سکیورٹی فورسز کی مذمت کرنے کے بجائے اس کا الزام بھی بی وائی سی پر لگا کر اس کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کیا۔
اپنے فوجی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے کھٹ پتلی وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی اور دیگر کئی ارکان اسمبلی نے قرار داد پر بحث کے دوران اپنے تقاریر میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ابھرنے والی انسانی حقوق کی تحریک ”بلوچ یکجہتی کمیٹی“ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے اور کسی نہ کسی طرح اسے بلوچستان کے تحریک آزادی کی مسلح تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ فوج اور انٹیلیجنس کے دلال ارکان اسمبلی اور کھٹ پتلی وزراء بی وائی سی سمیت ان تمام قوتوں پر تنقید کرتے رہے جو مخالفین کو ”جبری لاپتہ اور ماورائے عدالت قتل“ کرنے کی ریاستی پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں۔ فوج اور خفیہ اداروں کے سلیکٹڈ ارکان اسمبلی نہ صرف اپنے تقاریر میں بی وائی سی اور ریاستی دہشتگردی کے دیگر ناقدین سے 26 اگست کے واقعات کی مذمت کرنے کا مطالبہ کرتے رہے بلکہ قرار داد کے متن میں بھی لکھا گیا ہے کہ جو کوئی ان واقعات کی مذمت نہیں کرتے وہ دہشتگردوں کے ہمدرد ہیں۔
اس قرار داد سے پہلے شہباز شریف اور خواجہ آصف سمیت پنجاب کے متعدد لیڈر، نام نہاد صحافی اور صحافتی ادارے بھی کبھی بالواسطہ تو کبھی بلاواسطہ طور پر بی وائی سی سے یہ مطالبہ کرتے رہے۔ حتیٰ کہ پنجاب کی بائیں بازو کے چند ایک رہنماؤں کی طرف سے بھی اس طرح کے بیانات آئے جو کہ ان کی فکری خمیر میں پنجابی شاؤنزم کے کیڑے کی موجودگی کا اظہار ہے۔ یہ بیانیہ در اصل فوج کا ہے جسے فوج جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور بلوچ نسل کشی کیلئے نہ صرف بطور جواز استعمال کرتی ہے بلکہ بلوچ تحریک آزادی کے خلاف جنگ میں یہ پنجابی شاؤنزم اس کا ایک ہتھیار ہے۔ پنجاب کی با اثر سیاسی جماعتیں، حکومتیں، ارکان پارلیمان اور صحافتی ادارے اپنے فوج کے اس جھوٹے بیانیہ اور بلوچ نسل کش پالیسیوں، اقدامات اور کارروائیوں کی کھل کرحمایت اور دفاع کرتے آرہے ہیں جبکہ پنجاب کے کروڑوں کی آبادی میں باضمیر اور روشن خیالوں کے ایک چھوٹے سے حلقہ کو چھوڑ کر وہاں آبادی کی اکثریت بھی فوج اور خفیہ اداروں کے بنائے ہوئے اسی جھوٹے ریاستی بیانیہ پر یقین کرتے ہیں۔
اس بار بھی اس شاؤنسٹک بیانیہ کی پرچار سب سے پہلے پاکستان فوج کے ترجمان اور میڈیا برگیڈ کے کارندوں اور دلالوں نے سوشل میڈیا میں کیا۔ بعد میں میاں شہباز شریف و خواجہ آصف سے لے کر سرفراز بگٹی اور علی مدد جتک تک سب کھٹ پتلی حکومتی عہدیدار اور ارکان اسمبلی طوطے کی طرح اسی بیانیہ کا رٹہ لگانے لگے۔ در اصل پاکستانی فوج بلوچستان میں تحریک آزادی کی جمہوری محاذ کی سرگرمیوں، عوام کی آواز اور ان کی موبلائزیشن سے ڈرتی ہے۔ ماضی قریب میں فوج اور اس کے کاسہ لیسوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ، بی آر پی اور بی ایس او آزاد کو تحریک آزادی کی مسلح تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں کے ساتھ جوڑنے کا جھوٹا بیانیہ بنا کر ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، ان کی قیادت، کیڈرز، کارکنوں اور بلوچ دانشوروں کو چُن چُن کر جبری لاپتہ اور ماورائے عدالت قتل کیا۔ بی ایس او آزاد جیسے طلباء تنظیم کو دہشتگرد قرار دے کر اس پر پابندی لگایا۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کو خوفزدہ اور خاموش کرانے کیلئے مختلف حیلے و ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے ہیں جن میں ان کے خلاف مقدمات کا اندراج اور وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ کو رات کے اندھیرے میں کبھی جلا دینا تو کبھی اکھاڑ پھینکنا شامل ہیں۔
فوج اور اس کی کھٹ پتلی حکومتیں بی وائی سی کی اجتماعات پر لاٹھی چارج، فائرنگ، جھوٹے مقدمات کی اندراج ، دھمکی اور طاقت کا استعمال جیسے ہتھکنڈے استعمال کرکے ان کی آواز دبانے میں ناکامی کے بعد اب بی وائی سی کے سرگرم کارکنوں اور حامیوں سمیت بلوچ دانشوروں، متحرک طلباء اور سیاسی کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالنا، بدنام زمانہ انکاؤنٹر اسپیشلسٹ فورس سی ٹی ڈی کی طرف سے انھیں سمن جاری کرنا شروع کردیا ہے جو کہ فوج اور انٹیلیجنس اداروں کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے۔
لگتا ہے کہ فوج کے ایما پر کھٹ پتلی حکومت بی وائی سی کو بلوچستان کی تحریک آزادی کے مسلح محاذ سے جوڑ کر بی این ایم اور بی ایس او آزاد کی طرح اس کی سرگرمیوں کو روکنے اور اس پر پابندی لگانے کی کوشش کرے گی کیونکہ انسانی حقوق کی یہ بلوچ تحریک مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں، انسانیت کے خلاف ان کے جرائم اور جنگی جرائم کی طرف عالمی توجہ کا باعث بن رہی ہے جس کے سبب آگے چل کر ریاست پاکستان پر مختلف قسم کی پابندیوں اور فوج و انٹیلیجنس آفیسروں اور اہلکاروں کے خلاف انٹرنیشنل کریمینل کورٹ جیسے فورمز پر مقدمات کے اندراج اور جواب دہی کا راستہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اب یہ بات بی وائی سی کے قیادت کی فہم و فراست پر منحصر ہے کہ وہ ریاستی عزائم، سازشوں اور اشتعال انگیزیوں کو کس طرح ناکام بنا کر انسانی حقوق کی اس فعال بلوچ تحریک کو محفوظ و سلامت اور اس کی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں، اس کے بنیادی ایجنڈا اور اغراض و مقاصد پر قائم رہتے ہوئے متحرک رکھتے ہیں؟
اب کئی قارئین کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہوگا کہ فوج اور خفیہ ادارے مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ محب وطن، آزادی خواہ جمہوری سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے کیوں خوفزدہ ہیں؟ کیوں ان کی آوازوں کو بزور طاقت دبانے پر تُلے رہتے ہیں؟ تو اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ پاکستان کا قانونی، آئینی اور عدالتی ڈھانچہ پوری طرح بوسیدہ ہوچکے ہیں۔ فرسودہ نوآبادیاتی ساخت، نوعیت و فطرت کے باعث ریاست پاکستان اپنے اس بوسیدہ دستوری، قانونی، عدالتی اور انتظامی ڈھانچہ کے ذریعے بلوچ قومی تحریک آزادی کا مقابلہ کرنے کی سکت و صلاحیت نہیں رکھتا اسلئے مقبوضہ بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضہ، نوآبادیاتی نظام اور وسائل کے لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھنے کیلئے پنجابی فوج اور خفیہ ادارے جبری گمشدگیوں، ٹارگٹڈ قتل، جعلی مقابلوں اور ریاستی عقوبت خانوں میں زیر حراست بلوچوں کی ماورائے عدالت قتل جیسے کارروائیوں کے ذریعے بلوچ قومی تحریک آزادی کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ وہ یہ حقیقت بھی جانتے ہیں کہ ان کی ایسی کاروائیاں نہ صرف ان کے اپنے ملکی آئین کے مطابق بنیادی انسانی حقوق، آزادیوں اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں بلکہ عالمی قوانین کے تحت جرائم کے زمرہ میں آتے ہیں۔ اسلئے ریاست پاکستان چاہتی ہے کہ اس کی فوج اور خفیہ اداروں کے یہ جرائم خبر بن کر بلوچ عوام، علاقائی اور عالمی رائے عامہ سمیت میڈیا تک نہ پہنچیں۔ ان جرائم کیلئے ریاست، بالخصوص فوج اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو جواب دہ نہ بنایا جاسکے۔ جمہوری جماعتیں اور حقوق انسانی کی تنظیمیں ریاست کے ان جرائم پر آواز اٹھا کر ان کو بے نقاب کرتے ہیں، عوام کو متحرک کرکے مجرموں کا ہاتھ مروڑتے ہیں اس لئے ریاست، خصوصاً فوج اور خفیہ ادارے مقبوضہ بلوچستان میں محب وطن آزادی خواہ جمہوری جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے وجود اور سرگرمیوں کو برداشت نہیں کرتے۔ اس کے برعکس فوج اور خفیہ ادارے بلوچ قوم سمیت علاقائی و عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کیلئے الیکشن کا ڈرامہ کرکے ان نام نہاد اسمبلیوں اور حکومت میں اپنے مقامی دلال اور کاسہ لیسوں کو سلیکٹ کرتے ہیں تاکہ وہ جمہوریت کے نام پر بلوچستان میں جبری قبضہ، نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل جیسے جرائم پر پردہ ڈال سکیں۔
نام نہاد بلوچستان اسمبلی کی زیر بحث قرارداد پر کھٹ پتلی وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی، وزراء اور ارکان اسمبلی کی تقاریر، بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل پر فوج اور خفیہ اداروں کی حمایت اور قرار داد کی متن سے یہ حقیقت روز روش کی طرح صاف نظر آتی ہے کہ یہ نام نہاد ”بلوچستان اسمبلی“ اور کھٹ پتلی حکومت بلوچ قوم اور بلوچستان کے باشندوں کی نہیں بلکہ قابض پاکستان، بالادست پنجاب، پنجاب کے استعماری مفادات، بلوچستان پر اس کے جبری قبضہ اور اس کی مسلط کردہ نوآبادیاتی نظام کی نمائندگی کرتے ہیں
٭٭٭