عثمان کاکڑ سپرد خاک: بہت ہوگیا،پشتونوں کو سخت قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے، مقررین

0
269

عملی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد ہر آمریت کے خلاف ہمیشہ پیش پیش رہنے والے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر محمد عثمان کاکڑ کی تدفین کر دی گئی۔ وہ 60 برس کی عمر میں پیر کے روز کراچی میں وفات پا گئے تھے۔

عثمان کاکڑ کے قریبی رشتہ داروں کا الزام ہے کہ ان کی موت طبعی نہیں اور انھوں نے موت کی وجوہات کے بارے تحقیقات کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر محمد عثمان کاکڑ کی نماز جنازہ اور تدفین میں لوگوں نے جس بڑے پیمانے پر شرکت کی وہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقوں میں اب تک کا سب بڑا اجتماع تھا۔

بڑی تعداد میں سیاسی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کی شرکت کے باعث یہ ایک سیاسی اجتماع بھی بن گیا۔

اس بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران عثمان کاکڑ کے صاحبزادے خوشحال خان کاکڑ اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے عثمان کاکڑ کی موت کو ’باقاعدہ قتل‘ قرار دیا اور ان کے قتل کی ذمہ داری ملک کے دو خفیہ اداروں پر عائد کی۔

دوسری جانب بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیائاللہ لانگو نے تحقیقات کے حوالے سے پشتونخوا میپ اور عثمان کاکڑ کے خاندان کو پیشکش کی ہے۔

عثمان کاکڑ کی تدفین کا وقت پانچ بجے تھا لیکن ان کی تدفین کی تقریب میں سیاسی رہنماؤں کی بڑی تعداد میں شرکت اور خطاب کے باعث تدفین میں دو گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔

عثمان کاکڑ کی نماز جنازہ جمیعت العلمائاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے بھائی مولانا عطاالرحمان نے پڑھائی۔

نمازجنازہ میں تاحد نگاہ لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے۔ نمازجنازہ کے بعد عثمان کاکڑ کی تدفین ان کے نام سے منسوب قبرستان میں کی گئی۔

محمد عثمان کاکڑ کی نماز جنازہ اور تدفین میں لوگوں نے جس بڑے پیمانے پر شرکت کی وہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقوں میں اب تک کا سب بڑا اجتماع تھا۔

اس قبرستان کے لیے زمین عثمان کاکڑ نے دی تھی جس کے باعث اس قبرستان کو ان کے نام سے ہی منسوب کردیا گیا۔

جس طرح کوئٹہ سے کراچی تک عثمان کاکڑ کی میت کا فقید المثال استقبال کیا گیا اسی طرح کوئٹہ سے عثمان کاکڑ کے آبائی علاقے مسلم باغ تک بھی ان کی میت کا بڑے پیمانے پر استقبال کیا گیا۔

اگرچہ بلوچستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کے داخلے پر پابندی ہے لیکن عثمان کاکڑ کے نماز جنازہ میں موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو شرکت کی اجازت دی گئی تھی جس کے باعث وہ بھی اس میں شریک ہوئے۔

سیاسی رہنماؤں نے عثمان کاکڑ کی سیاسی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنی 60سالہ زندگی کا 40سال سیاسی جدوجہد میں گزاری۔

اس موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے کہا کہ ’عثمان کاکڑ کی موت طبعی نہیں ہے بلکہ انہیں قتل کردیا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ قتل کے ذمہ دار ملک کے وہ دوخفیہ ادارے ہیں جن کا نام عثمان کاکڑ نے اپنی زندگی میں لیا تھا۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’اگر کوئی انصاف کرسکتا ہے تو ہم ان کو بتاسکتے ہیں کہ عثمان خان کاکڑ کو کس طرح دھمکیاں ملیں اور کس طرح لوگ ان کے گھر میں داخل ہوئے اوران پر حملہ کیا۔‘

عثمان کاکڑ کے صاحبزادے خوشحال خان کاکڑ نے کہا کہ انہیں ڈاکٹروں نے بتایا کہ عثمان کے سرپربہت بڑی چوٹ لگی تھی اور وہ گرنے کی وجہ سے نہیں ہوسکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ عثمان کاکڑ نے اپنی زندگی میں یہ کہا تھا کہ اگر انہیں یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری دو خفیہ اداروں پر عائد ہوگی۔

خوشحال خان نے کہا کہ ان کے والد ہمیشہ یہ بات کرتے تھے کہ اب ان کے واردات کا طریقہ بدل گیا ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور پشتون اولسی جرگی کے سربراہ نواب ایازخان جوگیزئی نے عثمان کاکڑ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم حکمرانوں کو کہنا چاہتے ہیں کہ اب بہت ہوگیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پشتونوں کو ایسے قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے پھر آپ کو پچھتانا پڑے۔‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here