پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے کوئٹہ کے حالیہ دورے اور ان کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اور بلوچستان اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند سے ملاقاتوں کے باوجودبلوچستان کابینہ میں اختلافات شدت اختیار کر گئے۔
جام کمال نے، جنہیں وزیر تعلیم سردار یار محمد رند کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے، اپنے حالیہ اقدام میں سردار محمد صالح بھوتانی سے مقامی حکومت اور دیہی ترقی کی وزارت واپس لے لی۔
یہ جام کمال کی طرف سے ان کی کابینہ میں کی گئی دوسری تبدیلی ہے۔
گزشتہ سال پی ٹی آئی کے وزیر صحت نصیب اللہ مری کو کابینہ سے نکال دیا گیا تھا۔
سردار محمد صالح بھوتانی سے وزارت مقامی حکومت کا قلمدان واپس لینے کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ وزارت اب جام کمال اپنے پاس رکھیں گے۔
صالح بھوتانی کو اب تک کوئی نئی وزارت نہیں دی گئی ہے۔
نوٹی فکیشن میں صالح بھوتانی سے قلمدان واپس لینے کی کسی وجہ کا ذکر نہیں ہے۔
تاہم ذرائع نے کہا کہ کابینہ کی تشکیل کے بعد سے ہی جام کمال اور صالح بھوتانی کے درمیان بلدیاتی حکومت کے فنڈز اور ضلع لسبیلہ کے انتظامی افسران کی ردوبدل کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔
سردار محمد صالح بھوتانی طویل عرصے سے کابینہ کے اجلاس میں بھی شریک نہیں ہو رہے تھے۔
صالح بھوتانی نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وزیر اعلیٰ نے اس پیشرف سے متعلق ان سے مشاورت نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں اپنے دوستوں، سینیئر ساتھیوں اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت کر رہا ہوں جس کے بعد اگلے لائحہ کا اعلان کروں گا’۔
تاہم صالح بھوتانی کے قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ وہ کابینہ چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے کیونکہ وزیر اعلیٰ ان کے حلقے میں ‘مداخلت’ کر رہے تھے اور ان سے مشاورت کے بغیر انتظامی افسران کے تبادلے اور تعیناتیاں کر رہے تھے۔
دوسری جانب کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ جام کمال اور سردار یار محمد رند کے درمیان اختلافات بھی شدت اختیار کر گئے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کوئٹہ کے دوران یار محمد رند اور پی ٹی آئی کے دیگر اراکین نے ان سے ملاقات کی اور بتایا کہ جام کمال اہم فیصلوں سے قبل پارٹی اور اس کے پارلیمانی رہنما کو اعتماد میں نہیں لے رہے۔
عمران خان نے جام کمال سے بھی ملاقات کی تھی اور وفاقی وزیر اسد عمر سے اتحادیوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
تاہم اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی ہے۔
دوسرے روز پیشرفت میں حکمران باپ پارٹی کے وزرا، سینیٹرز، اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں نے پارٹی کے صدر جام کمال سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد جاری بیان میں انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ بلوچستان عوامی پارٹی، وفاقی حکومت میں پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بلوچستان حکومت کے لیے مسائل پیدا کیے گئے تو باپ پارٹی وفاقی حکومت کی سطح پر بہت کچھ کر سکتی ہے، سول سیکریٹریٹ میں بڑی تعداد میں مسلح محافظوں اور گاڑیوں (سردار یار محمد رند کے ساتھ) کی موجودگی بدامنی کا ماحول پیدا کر رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے ترجمان نے وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ سے جاری ‘بیبنیاد اور من گھڑت’ بیان پر حیرانی اور افسوس کا اظہار کیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر رہنما اور کٹھ پتلی وزیر خزانہ بلوچستان ظہور بلیدی نے کہا ہے کہ سردار صالح بھوتانی سے محکمہ بلدیات و دیہی ترقی کا قلمدان لینے کے فیصلے میں پارٹی رہنماؤں کو اعتماد میں نہیں لیاگیا، یہ فیصلہ وزیراعلیٰ کا اپنا ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر رہنما نے جیو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے تمام اراکین کی حمایت سردار صالح بھوتانی کے ساتھ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سردار صالح بھوتانی سے قلمدان لینے کے فیصلے میں وزیراعلیٰ جام کمال نے پارٹی رہنماؤں کو اعتماد میں نہیں لیا، پارٹی کے سینئر رہنما سردار صالح بھوتانی سے محکمہ بلدیات کا قلمدان لینے کا فیصلہ وزیراعلیٰ کا اپنا ہے۔
سینئر رہنما باپ نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال ہمیں بتائیں کہ اس فیصلے کا کیا جواز ہے۔