کشمیر: خاتون پولیس افسر شدت پسندوں کیخلاف آپریشنز میں رخنہ ڈالنے کے الزام میں گرفتار

0
369

سری نگر میں کشمیر کی پولیس نے ایک خاتون اہلکار کوشدت پسندوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی میں رخنہ ڈالنے کے الزام میں گرفتارکرکے نوکری سے برطرف کر لیا ہے۔

سرینگر میں پولیس ترجمان نے بتایا کہ حفاظتی دستوں نے گزشتہ دنوں شورش زدہ جموں و کشمیر کے جنوبی ضلع کلگام کے فرسل کے علاقے میں یہ مصدقہ اطلاع ملنے پر ایک آپریشن شروع کیا تھا کہ وہاں علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کا ایک گروہ چھپا ہوا ہے۔

ترجمان کے مطابق جونہی پولیس علاقے کے کریوا محلے میں پہنچی وہاں موجود ایک خاتون اسپیشل پولیس افسر صائمہ اختر نے نہ صرف ان کے کام میں خلل ڈالا بلکہ عسکریت پسندوں کی تعظیم و تکریم میں الفاظ بھی استعمال کیے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ صائمہ اختر دختر غلام نبی راہ نے جو اسی علاقے کی رہائشی ہیں اور پولیس میں اسپیشل پولیس افسر کے طور پر کام کرتی تھیں، نے سرچ ٹیم کے سامنے مزاحمت کی اور کارروائی کے دوران ایسے کلمات بیان کیے۔ جن سے دہشت گردوں کے پرتشدد اقدامات کی ستائش مقصود تھی۔

بیان کے مطابق اس پولیس افسر نے اپنے ذاتی موبائل فون سے ایک ویڈیو بنائی اور پھر اسے سرچ آپریشن میں خلل ڈالنے کی غرض سے ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کر دیا۔

وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں صائمہ اختر کو حفاظتی دستوں کو للکار کر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘میری ماں بیمار ہے اگر اسے کچھ ہو گیا تو میں تم لوگوں کو دیکھ لوں گی۔ تم لوگ یہاں بار بار آتے ہو۔ ہمیں سحری بھی نہیں کھانے دیتے۔ ہمارے پڑوسیوں کو بھی تنگ کرتے ہو۔ تمہیں کینسر کی بیماری ہو۔ ان گھروں میں جاو¿ جہاں عسکریت پسند موجود ہیں۔ ہمارے گھر میں کوئی عسکریت پسند نہیں ہے۔’

خاتون پولیس افسر سیکیورٹی فورسز پر چلاتے ہوئے یہ بھی کہتی ہیں کہ کشمیر ہمارا ہے۔ تم لوگ کہاں سے آگئے ہو؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمارے گھر کی تلاشی لینی ہے تو پہلے اپنے جوتے باہر اتارنے ہوں گے۔ میں تمہیں جوتوں سمیت گھر میں داخل نہیں ہونے دوں گی۔ ہم ڈرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ہم ڈرتے نہیں ہیں۔ کرو جو کچھ کرنا ہے۔ یہ لوگ روز آتے ہیں۔ ہمارے پڑوسیوں کو بھی تنگ کرتے ہیں۔

ویڈیو میں کسی مرد کی آواز بھی سنی جا سکتی ہے اور وہ بھی سیکیورٹی فورسز پر شہریوں کو ہراساں کرنے کا الزام لگا رہا ہے۔

ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا کہ صائمہ اختر کے خلاف مقامی پولیس تھانے میں تعزیراتِ ہند کی دفعہ 353 اور غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے ایکٹ کی دفعہ 13 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی انہیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا ہے۔

غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے ایکٹ کی اس دفعہ کے تحت اگر ملزم پر کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی وکالت کرنے یا اس میں مدد دینے، اس سلسلے میں مشورہ دینے یا اس کے لیے اکسانے کا الزام ثابت ہوتا ہے تو اسے سات سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے اور اس پر جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔

تعزیراتِ ہند کی دفعہ 353 کا تعلق کسی سرکاری ملازم پر حملہ کرنے یا ایسی مجرمانہ طاقت استعمال کرنے سے ہے جس کا مقصد اس کی ذمہ داری کی انجام دہی میں رخنہ ڈالنا ہو یا اس سے ایسی صورتِ حال پیدا ہو جو اس کے قانونی کام کاج میں مداخلتِ بے جا کا موجب بن جائے۔

الزامات درست ثابت ہونے کی صورت میں ملزم کو دو سال تک کی قید یا جرمانے یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here