بی این ایم کا نظریہ وہی ہے جو شہید غلام محمد کے زمانے میں تھا، چیئرمین خلیل بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
9 Min Read

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے شہدائے مرگاپ کے 12 ویں یوم شہادت کے موقع پر اپنے ایک بلوچی زبان میں جاری کیے گئے ویڈیو پیغام میں کہا شہید غلام محمد اور ساتھیوں نے بلوچ قومی آزادی کے حصول کے لیے ایک ایسے ادارے کی تشکیل کی کوشش کی جو بلوچ قومی آزادی کا ضامن بن سکے۔

انھوں نے کہا ہم اس موقع پر عہد کرتے ہیں ہم بی این ایم کو آنے والی نسلوں کو سونپیں گے اور وہ اسی جذبہ اور احساسات کے بلوچ قومی تحریک کو زیادہ مضبوط شکل میں آگے لے جائیں گے۔

انھوں نے کہا اس درمیان کچھ لوگوں نے بی این ایم کو ایک اور رخ دے کر مختلف رستے پر لے جانے کی کوشش کی لیکن انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور بی این ایم کے کارکنان نے انھیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔

ان کا کہنا تھا میں بلوچ قوم کو یہ اطمینان اور یقین دلانا چاہتا ہوں کہ بی این ایم کا نظریہ وہی ہے جو شہید غلام محمد کے زمانے میں تھا بلکہ آج شہیدوں کی قربانیوں کی بدولت زیادہ توانا اور مضبوط ہے۔

آج ہم ان بلوچ قومی رھبر اور ان کے ساتھیوں کو یاد کررہے ہیں کہ جنھوں نے بلوچ قوم کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے اسے ایک ایسا ادارہ دینے کی کوشش کی کہ وہ پارٹی بلوچ قومی آزادی کا ضامن بن سکے اور اس مقصد کے لیے جنھوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور نوجوانوں کا ایک ایسا کیڈر تیار کیا کہ جنھوں نے مسکراتے ہوئے بلوچ قومی آزادی اور اس کے وطن کے لیے اپنے سر قربان کیے۔

آج میں بلوچ قوم کے ان نوجوان کیڈرز سے مخاطب ہوں کہ انھوں نے شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے مقصد، فلسفہ اور انھوں نے قومی آزادی کے مقصد کے لیے جو سیاسی پارٹی تشکیل دی اس کی تشکیل کو آگے لے جانے کے لیے ، اس کے مختلف شعبہ جات میں اسی فلسفہ اور نظریے کو آج بلوچ نوجوانوں کو آگے لے جانا چاہئے۔

جیسا کہ ہم نے ملاحظہ کیا واجہ غلام محمد کے ساتھ اور واجہ غلام محمد اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد بلوچ نوجوانوں نے اسی رفتار سے اس فلسفہ، اس نظریہ اور اس پروگرام کو آگے بڑھایا۔ ان حالات کا مقابلہ کیا، وہ کیسے بھی حالات رہے۔ چاہئے وہ ریاستی جبر، ریاستی تشدد ، اٹھا کر لے جانا،شہید کرکے پھینک دینا۔وہ ریاستی پالیسیاں تھیں یا داخلی مسائل کہ بہت سے لوگ اس فلسفے سے دستبردار بھی ہوئے ہیں۔ یا کچھ لوگوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ کو ایک نئی شکل اور ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی۔ اس کا راستہ بدلنے کی کوشش کی لیکن بلوچ کے ان نوجوانوں نے،ہمارے کیڈرز نے ان حالات کا مقابلہ کیا اور انھوں نے اس نظریہ، فلسفہ اور پروگرام کو آگے بڑھایا اور اس پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کیا۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے نوجوانوں اور اس کے ممبران نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے نظریاتی سرمایہ پر کمپرومائز نہیں کیا۔اوران حالات میں،قومی آزادی،غیرپارلیمانی سیاست اور بلوچ مزاحمتی سیاست کی حمایت کی، ان تین بنیادی شرائط پر بلوچ نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی گئی ،آج تک کہ میں اسے ایک بہت مختصر وقت سمجھتا ہوں لیکن اسی مختصر وقت میں ہم نے سینکڑوں سر قربان کیے۔ اسی مختصر عرصے میں ہم نے اگر غلام محمد کو قربان کیا، لالا منیر کو قربان کیا، دوسرے دوستوں کو قربان کیا، ڈاکٹرمنان جیسے دوست قربان ہوئے لیکن ہم نے اپنے نظریہ ، فلسفہ اور پارٹی کے اساس پر کمپرومائز نہیں کیا اس لیے میں بلوچ قوم سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ جس پارٹی سے وابستہ ہیں۔بلوچ قوم نے ہر وقت ، ہر حالات میں جس پارٹی کی مدد کی ، شامل رہے۔ اس پارٹی کی ترقی کے لیے انھوں نے اپنے مال اور جان کی قربانیاں دیں ، اس کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اطمینان رکھیں کہ آج بھی بلوچ نیشنل موومنٹ وہی بلوچ نیشنل موومنٹ ہے۔

مضبوط تر ہے ، شہیدوں کے خون نے اسے مضطوط تر کیا ، توانا تر ہوچکی ہے۔بی این ایم کے اداروں میں، فلسفہ میں ابھی تک کمزوری نہیں آئی۔یہ بلوچ کیڈرز کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے انقلابی اصولوں کے ساتھ جہد کو آگے بڑھائیں۔ان بارہ سالوں میں شہید واجہ غلام محمد اور بہت سے ساتھی جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں۔ بی این ایم روز اول سے لے کر آج تک میں سمجھتا ہوں بہترین طریقے سے اپنے کارکنان کو انقلابی تعلیم و تربیت دے سکی ہے۔

اس جہد میں بی این ایم کے دیگر اتحادی ساتھیوں کے ہمراہ یا دوسری آزادی پسند جماعتوں کی طرف سے ایک بہترین انقلابی تعلیم، بہترین انقلابی لٹریچر اپنے کارکنان اور عوام کو دیا گیا ہے اس لیے راستے کا تعین ہوچکا ہے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا پہلے سے زیادہ احساس ہونا چاہئے۔ہمیں اپنی ذات سے نکل کر اپنے مقصد کو ترجیح دینا ہوگا یقینا ہمارا مقصد قومی آزادی ہے۔ جس پارٹی کے مقصد کے لیے سینکڑوں قیمتی جانیں قربان ہوئی ہوں وہ آپ کی قومی نجات کی ضامن ہوسکتی ہے۔

ہمارا نظریہ یہی تھا کہ ادراہ آپ کو قومی آزادی دلاسکتا ہے پارٹی کے بغیر ، ادارہ کے بغیر آپ اپنی آزادی نہیں لے سکتے۔اگر لے بھی سکے تو اس قومی آزادی کا تصور نہیں دے سکتے۔آج شہید واجہ غلام محمد اور ان کے ساتھیوں کے بارہویں یوم شہادت پر ہم ایک مرتبہ پھر عہد کرتے ہیں کہ ہم شہیدوں کی راہ کے مسافر ہیں ، ہم ان شہیدوں کے نقش قدم چل رہے ہیں۔ جس طرح ہمارے ہمراہ کئی ساتھوں نے اپنے سر قربان کیے ہیں۔ میں خود کو خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں کہ میں اس طرح کے بہار اور نظریاتی لوگوں کا ساتھی رہا ہوں کہ انھوں نے اپنی جانیں بلوچستان پر قربان کی ہیں انھیں اپنی سرزمین سے بے انتہا محبت تھی اور ان کا بے پناہ جنون تھا۔

آج بھی بلوچ نیشنل موومنٹ میں اس طرح کے ممبران کی کمی نہیں اور ہم اس دن عہد کریں کہ ہم بلوچ نیشنل موومنٹ کو نئی نسل کو سونپیں گے اور وہ نئی نسل اسی جذبے کے ساتھ مضبوط تر شکل میں اپنی قومی تحریک کو آگے لے جائے گی اور اس پروگرام، اس فلسفہ اور اس مقصد کو کہ واجہ غلام محمد، لالامنیر یا شہید شیر محمد یا بلوچ نیشنل موومنٹ یا قومی تحریک میں شہیدوں کا فلسفہ تھا، ہزاروں شہیدوں کا فلسفہ تھا، اسے فلسفے کو منزل کی طرف لے جائیں اور اپنے پاؤں میں ذرہ برابر بھی لرزش نہ آنے دیں۔

ان اداروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا یہ ادارے ان اداروں سے وابستہ دوستوں کو اپنی جان کی طرح عزیز ہیں اور وہ ان کے تحفظ کے لیے اور انھیں اپنی قوم آزادی کا ضامن بنانے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

Share This Article
Leave a Comment