راشد حسین کی جبری گمشدگی کے دو سال مکمل ہونے پرکراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4173 دن مکمل ہوگئے۔ چیئرمین میڈیا کمیٹی کراچی بار کونسل کے انور میمن اور راجپوت ویلفئر کے رانا عبدالخالق راجپوت سمیت لاپتہ سندھی کارکنان کے لواحقین اور ایکٹوسٹس نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
لاپتہ راشد حسین کی بھتیجی ماہ زیب بلوچ، لاپتہ سیاسی رہنماء ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی مہلب دین بلوچ، لاپتہ طالبعلم رہنماء شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ سمیت دیگر نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ہر قسم کی تذلیل کرنا پاکستانی ٹارچر سیلوں میں شامل ہے، اپنی من مانی طریقوں سے یہ سب اعمال اور ٹارچر آج بھی کی جارہی ہے جوکہ غیر انسانی ذہنیت میں آتے ہیں۔ ٹارچر سیلوں میں بند افراد فیملی والوں کو مختلف طریقوں سے یہ سب اعمال اور حراسان کرنا اور رہائی کے نام پر ان سے لاکھوں روپے لیتے ہیں مگر بعد میں مارکر ان کی لاشیں پھینک دینا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کے تحت سب کو حق ہے کہ وہ اپنی دفاع کیلئے عدالت سے رجوع کرے اور اپنی مرضی کا وکیل رکھے آزانہ اور غیرجانبدار پبلک ایئرنگ ہو مگر خفیہ ٹارچر سیلوں میں رکھنا اقوام متحدہ کے اصولوں کے منافی ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا کہ بلوچ احتجاج کے ذریعے اپنی آواز انسانی حقوق کے اداروں تک پہنچانے کیلئے ہر جمہوری عمل کو اپنا کر اپنی جدوجہد رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں شامل شق کہاں اور کس وقت عمل میں لائے جائینگے۔ ہم مظلوم اور محکوم اقوام کو دروغ کا آسرا تو نہیں، ٹارثر سیلوں سے متاثرہ کسی بلوچ یا بلوچ قوم کے نمائندے کو دعوت نہیں دے سکتے کہ وہ مظالم کیخلاف آواز اٹھائے، ان سب کیخلاف مہذب دنیا کو آواز اٹھانی ہوگی۔
راشد حسین کی جبری گمشدگی کے دو سال مکمل ہونے اور کریمہ بلوچ کے مبینہ قتل کیخلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور سندھ نیٹورک کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جبکہ وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کے کارکنان سمیت سندھی لاپتہ افراد کے لواحقین اور ایکٹوسٹس نے مختلف علاقوں سے آکر احتجاج میں شرکت کی۔
مظاہرے میں راشد حسین کے لواحقین، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ، لاپتہ ڈاکٹر محمد کی بیٹی مہلب بلوچ اور شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ شامل تھیں۔
سندھ نیٹورک رہنماوں نے اس موقع پر کہا کہ راشد حسین سمیت سندھی، پشتون، اردو اسپیکنگ اور شیعہ لاپتہ افراد ایک ہی پالیسی کے تحت جبری گمشدگی کا شکار ہے۔ مظلوم اقوام کی اس مسئلے پر مشترکہ جدوجہد ہی ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی پامالیاں بلوچستان میں گذشتہ دہائیوں سے جاری ہے لیکن پامالیوں میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران جبری گمشدگیوں کی صورت میں ایک اور اضافہ کیا گیا۔ اس دوران متعدد افراد جن میں طلباء صحافی، وکلاء، اساتذہ، ادیب غرض ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کو جبری گمشدگیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں لاپتہ ہونیوالے والے افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں توتک، پشین، پنجگور اور ڈیرہ بگٹی سے اجتماعی قبروں کی برآمدگی نے انسانی حقوق کے پامالیوں میں ایک اور باب کا اضافہ کیا ہے آج جب بلوچستان بلوچ رہنماء بانک کریمہ کی بیرون ملک قتل پر سراپا احتجاج ہے اس سے دو سال قبل 26 دسمبر 2018 انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کو بھی بیرون ملک متحدہ عرب امارات سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جو تاحال لاپتہ ہے۔
راشد حسین کے لواحقین کا کہنا تھا راشد حسین بلوچ ایک طالب علم تھا، بلوچستان کے ضلع خضدار میں راشد حسین کے 14 سالہ کزن مجید زہری کو اغواء کے بعد ان کی تشدد زدہ لاش ملی، اس کے بعد خضدار کے مشہور و معروف تاجر 70 سالہ حاجی محمد رمضان زہری کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ مختلف اوقات میں متذکرہ خاندان کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا، گھرو کاروبار جلائے گئے اور دھمکیاں ملتے رہے۔ پورا خاندان اذیت ناک زندگی گذار رہا تھا، پھر وہ مجبور ہوکر خضدار سے اپنا کروڑوں روپے کی جائیداد، کاروبار اور ملکیت چھوڑ کر دبئی منتقل ہوئے۔
انہوں نے کہا راشد حسین بھی ان ہی حالات سے متاثر ہوکر دبئی منتقل ہونے پر مجبور ہوا جہاں محنت مزدوری کرنے لگا لیکن بیرون ملک بھی وہ محفوظ نہیں رہے۔ 26 دسمبر 2018 کو اپنے دیگر کزنوں کے ساتھ صبح سویرے اپنے کام کے سلسلے میں جارہے تھے کہ راستے میں متحدہ عرب امارات کے خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے انکی گاڑی روک لی اور راشد کو گاڑی سے اتار کر لے گئے۔ اسی دن سے راشد کے خاندان سمیت بلوچ ایکٹویسٹ، انسانی حقوق کے تنظیموں کے رہنماوں نے مسلسل کوشش کی کہ راشد حسین کا کوئی سراغ مل جائے کہ وہ کہاں ہے، کچھ معلوم نہیں ہوا، آخر ایک ہفتے بعد راشد کو امارات کے خفیہ ادرے والے بھاری فورسز کے ساتھ اس کے کزن کے گھر لے آئے، راشد کی حالت سے ایسا لگا کہ وہ تشدد کا شکار ہوا تھا، وہ گھر کی تلاشی اور راشد کا فون وغیرہ کا پوچھ گچھ کرنے لگے اور متاثرہ خاندان کے لوگوں کو دھونس دھمکی دے کر یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ اب تم لوگوں کا بھی خیر نہیں ہوگا۔

لواحقیقن کے مطابق اس کے بعد راشد حسین کا کوئی اتا پتا نہیں چلا، 27 جنوری کو ایک مہینے بعد پاکستانی میڈیا پر نیوز آیا کہ پاکستانی پولیس حکام کی طرف سے چینی قونصیلٹ کی مرکزی سہولت کار راشد حسین شارجہ سے گرفتار ہوا ہے، بعد ازاں 3 جولائی کو پاکستانی مین اسٹریم میڈیا پر خبر چلی کہ راشد حسین کو انٹرپول کے ذریعے پاکستان منتقل کیا گیا لیکن لواحقین نے کوششوں کے بعد دستاویزات تک رسائی حاصل کرلی جن کے مطابق راشد حسین کو 22 جون کو غیر قانونی طور پر پرائیویٹ جہاز میں دالبندین منتقل کیا گیا۔
انہوں نے تفصیلات بتاتے مزید کہا کہ راشد حسین کے گمشدگی کو دو سال مکمل ہونے کے بعد بھی متحدہ عرب امارات سمیت پاکستان نے انہیں انسانی اور قانونی حقوق نہیں دیئے گئے بلکہ اسی میڈیا پر منتقلی کی خبریں چلانے کے بعد راشد حسین کو مفرور قرار دیکر میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان میں انسانی حقوق کے امور کے وزیر شیریں مزاری سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کہتے ہیں کہ راشد حسین گرفتار ہے پاکستان کی حراست میں ہے۔