مظفر آبادا ور سری نگر کی حیثیت تحریک کشمیر کے تناظر میں تحریر: الیاس کشمیری

0
311

آزادی اور انقلاب کی جدوجہد صبر آزما اور کٹھن ہوتی ہے۔اس جدوجہد کے نتائج راتوں رات سامنے نہیں آتے،بلکہ درست بیانیے پر مسلسل جدوجہد عوام کو منظم کرنے کی بنیاد بنتی ہے۔

جدوجہد کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے منظم و ضبط کی پابندی،اور دورانِ جدوجہد ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں دور
کرنا لازم ہے۔جب عمل ہو گا تو اس میں غلطیاں ضرور ہوں گی،لیکن ان غلطیوں اور خامیوں کا سدِباب ضروری ہے،ان غلطیوں کو دہرانا بہت نقصاندہ ہوتا ہے۔

جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک“کے دوسرے مراحلے کے اختتام پر پیپلز نیشنل الائنس کے کارکنوں اور قیادت نے اجتماعی طور پر ثابت قدمی کا ثبوت دیا ہے۔

مظفرآباد سے واپسی پر عوامی پرتوں کے ایک بڑے باشعور حصے کی ہمدردیوں کو پی این اے سمیٹنے میں کامیاب ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پی این اے کے ورکز نئے انقلابی جذبے کو اپنے اندر سموتے ہوئے زیادہ شدت کے ساتھ تحریک کے تیسرے مراحلے کے لیے عوام میں جانے کا عزم لیے ہوئے لوٹے ہیں۔

تحریک کے دوسرے مراحلے کے اختتام پر قابض اور محکوم عوام کے درمیان تضاد اس حد تک ضرور گہرا ہوا ہے کہ عوام کی نچلی اور با شعور پرتوں بالخصوص نوجوانوں میں کچھ نئے سوالات نے جنم لیا ہے،اس کے ساتھ ہی مباحثے اور بہت کمزور سے مکالمے کا بھی آغاز ہوا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط پوزیشن اختیار کرے گا۔

کچھ ایسے سوالات اور بحث زدِ عام ہیں کہ موجودہ حالات میں ہم سری نگر کی آزادی کے لیے کیا عملی اقدامات کر سکتے ہیں؟

اگر مظفرآباد اور گلگت کی حکومتیں با اختیار ہو جائیں ان کے اشتراک سے ایک ایسی اسمبلی وجود میں آئے جو خود مسئلہ ریاست جموں کشمیر کو دنیا کے سامنے پیش کرے تو کیا ہم ریاست جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی کے لیے واقعی کچھ عملی اقدامات کر سکتے ہیں؟؟

کیا سری نگر کی آزادی کا سوال مظفرآباد کی آزادی کے سوال کے ساتھ جڑا ہوا ہے؟؟

اگر مظفر آباد میں آزادی کی آواز کو بلند کیا جائے تو سری نگر جیسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں ایسا کیوں ہے؟

اگر پاکستان اور ہندوستان کے کی آپس میں واقعی دشمنی ہے تو پھر پاکستان مسئلہ ریاست جموں کشمیر کی نسبت سے ہندوستان کے ساتھ کیے جانے والے تمام معاہدہ منسوخ کیوں نہیں کرتا؟؟
ایکٹ چوہتر،معاہدہ کراچی اور لینٹ آفیسران کی موجودگی میں کون سی آزادی ہے؟

ایسے کئی دیگر سوالات 22 اکتوبر کے بعد زیرِ بحث ہیں،انہی سوالات کو لیکر عوام کے ساتھ عوام کی زبان میں گفت و شنید کی ضرورت ہے،ہم عوام کو شعور دینے اور عوام سے شعور لینے کے فلسفے پر کاربند رہتے ہوئے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے،چونکہ جو ہم سماج کے تجزیے سے سیکھتے ہیں عوام کی اکثریت وہ روز مرہ کے عمل سے سیکھتی ہے،اور کسی بھی تحریک کے دوران عوام بہت تیزی سے سیکھتے اور آگے پیش رفت کرتے ہیں۔

ہم مظفرآباد سے یہ عزم حوصلہ اور جذبہ لیکر لوٹے ہیں کہ عوام کو درست بنیادوں پر منظم کرنے کے لیے انتھک اور مسلسل جدوجہد کریں گے۔آج حالات ایسے پیدا ہو چکے ہیں کہ ماضی کی نسبت درست اور غلط،اچھے اور برے،دوست اور دشمن،آزادی اور غلامی میں فرق کو سمجھنا اور سمجھانا آسان ہو چکا ہے۔قابض پاکستان سے آزادی یقینی ہے۔

منظم عوام کی فتح پر یقین محکم کرتے ہوئے بڑھے چلو۔۔۔فتح عوام کی منتظر ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here