بھارت : بغیر مقدمے کے6 سال سے قید خاتون پروفیسر ضمانت پر رہا

0
121

بھارتی سپریم کورٹ نے بغیر مقدمے کے6 سال سے قید سابق خاتون پروفیسر کو ضمانت پر رہا کردیا۔

ناگ پور یونیورسٹی کی انگریزی زبان و ادب کی سابق پروفیسر شوما سین کی عمر اس وقت 66 برس ہے۔ انہیں 2018ء میں ملک میں دہشت گردی کی روک تھام کے ان سخت قوانین کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، جن پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیمیں شدید تنقید کرتی ہیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے بقول شوما سین کا تقریباً چھ برس تک ان کے خلاف کسی بھی قانونی یا عدالتی کارروائی کے بغیر حراست میں رکھا جانا اس امر کا ایک اور تشویش ناک ثبوت ہے کہ بھارت میں انسداد دہشت گردی کے بہت کڑے قوانین کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔

شوما سین کو 15 دیگر سرگرم کارکنوں اور ماہرین تعلیم کے ساتھ ان الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ ملک میں ذات پات اور نسل کی بنیاد پر قائم مختلف سماجی گروپوں کے مابین تشدد کو مبینہ طور پر ہوا دے رہے تھے۔

ان 16 گرفتار شدگان میں ایک مسیحی پادری سٹین سوامی بھی شامل تھے، جن کا گرفتاری کے تین سال بعد جیل میں ہی 84 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا۔

ان تمام 16 سرکردہ شخصیات کو بھارت میں دہشت گردی کی روک تھام کے ذمے دار اعلیٰ ترین ادارے قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے گرفتار کیا تھا۔ اس ایجنسی کا دعویٰ تھا کہ شوما سین اور دیگر زیر حراست افراد کے ماؤ پسند باغیوں کی انتہائی بائیں بازو کی مسلح تحریک کے ساتھ مبینہ رابطے تھے۔

بھارت کی نیشنل کرائم ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ شوما سین اور دیگر کے انتہائی بائیں بازو کے ماؤ باغیوں سے روابط ہیں۔

جمعہ کو بھارتی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران رکنی بینچ نے کہا کہ فی الحال، درخواست گزار تقریباً 6سال سے زیر حراست ہیں، ان کی عمر 66 سال سے زیادہ ہے اور ابھی تک الزامات طے نہیں کیے گئے ہیں۔

عدالت نے مزید کہا کہ اگر ہم مختلف گواہوں کے ذریعے درخواست گزار سے منسوب کارروائیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں پہلی نظر میں کمیشن یا کسی دہشت گردی کی کارروائی کی کوشش نظر نہیں آتی۔

اسی معاملے میں زیر حراست ایک اور سماجی کارکن سودھا بھردواج کو ممبئی ہائی کورٹ نے 2021 میں رہا کر دیا تھا۔

سودھا بھردواج اور اسٹان سوامی کی طرح شومی سین کو بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت حراست میں لیا گیا تھا جہاں یہ قانون کسی مقدمے کے بغیر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے یہ قانون اپنے مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

بھارتی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال 1000 سے زیادہ افراد کو اس قانون کے تحت حراست میں لیا جاتا ہے جن میں 100 سے بھی کم کو سزا سنائی جاتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here