دوحہ معاہدے نے افغان طالبان کو مضبوط کیا، امریکا کا اعتراف

0
173

امریکی حکام نےاعتراف کیا ہے کہ دوحہ معاہدے نے افغان طالبان کو مضبوط اور امریکہ کے اتحادیوں کو کمزور کیا ہے۔

بدھ کو واشنگٹن میں ہونے والی ہفتہ وار بریفنگ میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا “سابق انتظامیہ کے طالبان کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کرنے کے تین سالوں میں ہی میرے خیال میں اس کے مضمرات واضح ہو گئے ہیں‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’معاہدے نے طالبان کو بااختیار بنایا، افغان حکومت میں ہمارے شراکت داروں کو کمزور کیا اور صدر بائیڈن کے حلف برداری کے چند ماہ بعد اپنی فوجوں کو وہاں سے واپس بلانے کا اقدام جس میں کوئی ڈیڈ لائن رکھنے کے باوجود کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں تھی۔”

امریکی اہل کار نے مزید کہا “ہم نے ملا برادر کا بیان دیکھا ہے، اور ہم یقیناً ان کے اپنے بیان کے اہم نکات سے متفق نہیں ہیں۔ یعنی طالبان نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔یعنی وہ وعدے جو انہوں نے دوحہ معاہدے میں کیے تھے۔ جب کہ انہوں نے افغانستان میں بعض دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے کچھ غیر اطمینان بخش اقدامات کیے ہیں، لیکن یہ بات سب کو معلوم ہے کہ طالبان نے اس وقت کے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو پناہ دی تھی، جو معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔”

نیڈ پرائس نے کہا امریکی حکومت اس طرح کی دھمکیوں کے مقابلے میں فیصلہ کن کارروائی کرنے کے لیے پرعزم ہے، اسی لیے ایمن الظواہری کو منظر سے ہٹایا گیا۔ طالبان نے بھی سیاسی مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے دوحہ کے اپنے وعدے کو پورا نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا ”ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دوحہ معاہدہ ایک پرامن تصفیے کا تصور پیش کرتا ہےا، طالبان کی جانب سے قبضے کا نہیں۔ درحقیقت، اس کا عنوان تھا، ’’افغانستان میں امن لانے کے لیے ایک معاہدہ‘‘۔ ہم طالبان سے کہتے ہیں کہ وہ ان وعدوں کو پورا کریں جو انہوں نے اس دستاویز کے تناظر میں نہ صرف امریکہ سے کیے تھے، بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ وعدے جو اپنے لوگوں کے ساتھ کیے تھے۔”

انہوں نے کہاکہ گزشتہ مارچ میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند کرنے کے طالبان کے فیصلے نے ایک بار پھر ان وعدوں کی خلاف ورزی کی جو طالبان نے اپنے لوگوں سے کیے تھے۔ طالبان کے نمائندوں کے ساتھ ہماری بات چیت پر اس کا نمایاں اثر پڑا۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا اس فیصلے کے بعد طالبان نے دعویٰ کیا کہ یہ طریقہ کار اور انتظامی معاملہ ہے۔ انہوں نے دعویٗ کیا کہ پابندی جلد ہی ختم کر دی جائے گی۔ اس کی بجائے، 20 دسمبر کو نام نہاد ہائر ایجوکیشن منسٹری کی طرف سے ایک آرڈر آیا جس میں کہا گیا تھا کہ خواتین یونیورسٹیوں میں بھی نہیں جا سکتیں۔ اور اس حکم نامے کے نفاذ کے ساتھ، نصف افغان آبادی – افغانستان کی مکمل نصف آبادی پرائمری اسکول سے آگے تعلیم تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہوگئی۔ تعلیم ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حق ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here