کشمیر: سرچ آپریشن میں 5 بھارتی فوجی اور ایک ٹارگٹ کلر ہلاک

0
226

کشمیر میں پولیس نے ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات میں ملوث ایک شدت پسند کو مقابلے کے دوران ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ ایک الگ کارروائی میں فوج کے پانچ اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق پیر کو شورش زدہ وادی کشمیر کے شمالی ضلع بانڈی پور میں انکاؤنٹر آپریشن کے دوران امتیاز احمد ڈار نامی عسکریت پسند مارا گیا ہے جس کے چار ساتھیوں کو گزشتہ دنوں چھاپوں کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔

پولیس سربراہ دل باگ سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ پانچوں افراد ایک مقامی ٹیکسی ڈرائیور محمد شفیع لون کے قتل کی سازش میں ملوث تھے جن کا تعلق ‘دی ریزسٹنس فرنٹ’ یا ٹی آر ایف نامی تنظیم سے ہے۔

پولیس کے مطابق یہ تنظیم ٹارگٹ کلنگز اور دہشت گردی کے کئی واقعات کی ذمہ دار ہے جب کہ ٹی آر ایف کالعدم عسکری تنظیم ‘لشکرِ طیبہ’ کا ایک شیڈو گروپ ہے۔

لشکرِ طیبہ اور ٹی آر ایف نے پولیس کے ان الزامات کی بارہا تردید کی ہے۔

گزشتہ ہفتے سری نگر اور اس کے مضافات میں یکے بعد دیگرے سات افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جن میں ایک سکھ خاتون اور تین ہندو بھی شامل تھے۔

خونریزی کے ان واقعات اور ان کی وجہ سے اقلیتوں میں پیدا شدہ خوف و ہراس سیکیورٹی فورسز کے لیے نئے چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔

دوسری جانب کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کے علاقے سُرنکوٹ میں شدت پسندوں کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران بھارتی فوج کے پانچ اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں جن میں ایک جونیئر کمیشنڈ آفیسر بھی شامل ہے۔

علاقے میں مزیدشدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں اور آخری اطلاع تک بھارتی فوج کا آپریشن جاری ہے۔

کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات کے بعد مقامی پولیس نے ایک بڑے کریک ڈاؤن کے دوران تقریباً 700 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

حراست میں لئے گئے افراد کالعدم جماعت اسلامی، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس اور دوسری ہم خیال سیاسی جماعتوں کے اراکین، حامی یا ہمدرد ہیں۔

حراست میں لیے جانے والے افراد میں ایسے نوجوان بھی شامل ہیں جن پر ماضی میں سرکاری دستوں پر سنگ باری کرنے کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

دوسری جانب ‘این آئی اے’ نے سری نگر کے ایک اسکول کی پرنسپل سوپندر کور اور استاد دیپک چند کے قتل کے سلسلے میں لگ بھگ 50 افراد سے پوچھ گچھ کی ہے جن میں مختلف سرکاری اسکولوں کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here