امریکا اورطالبان نے افغان امن معاہدے پر دستخط کردیئے

0
438

امریکہ اور افغان طالبان نے طویل عرصے سے جاری امن مذاکرات کے بعد معاہدے پر دستخط کر لیے ہیں جس کی مدد سے افغانستان میں گذشتہ 18 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

اگر افغان طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی تو امریکہ اور ان کے نیٹو اتحادیوں نے افغانستان سے اپنی تمام افواج اگلے 14 ماہ میں واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کے لیے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور دیگر افغان طالبان کے رہنما دوحہ میں موجود تھے۔

توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں افغانستان کی حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوگا۔

جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اتحادی افواج افغانستان میں موجود اپنے دستے اگلے 14 ماہ میں نکال لیں گی بشرطیکہ طالبان اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔

امریکہ نے نائن الیون کے واقعات کے چند ہفتوں بعد افغانستان پر حملہ کیا جہاں شدت پسند گروپ القاعدہ موجود تھا۔

اس کے بعد سے اب تک 2400 سے زیادہ امریکی فوجی، ہزاروں طالبان جنگجو اور عام لوگ اس لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس وقت بھی 12000 فوجی وہاں تعینات ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ وہ اس جنگ کو ختم کر دیں گے۔

امریکہ میں نائن الیون کے واقعات کے ایک مہینے بعد، یعنی اکتوبر 2001 میں امریکی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ امریکہ کا موقف تھا کہ نائن الیون کے حملوں کے لیے ذمہ دار ‘القاعدہ کی قیادت’ افغانستان میں موجود ہے۔

امن معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں امریکی کی جانب سے زلمے خلیل زاد اور افغانستان کے سیاسی دھڑے کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر شامل تھے۔

تقریب میں شرکت کرنے والے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے خطاب کرتے ہوئے افغان طالبان پر زور دیا کہ وہ اپنے ‘وعدوں سے منحرف نہ ہوں اور القاعدہ سے اپنا تعلقات منقطع کر لیں۔’

انھوں نے ساتھ ساتھ امید ظاہر کی کہ افغانستان اس معاہدے کے بعد گذشتہ 40 برسوں سے جاری جنگ سے چھٹکارا پا لے گا۔

‘مجھے امید ہے کہ تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان اور اس کے شہری اب ایک نئی اور ایک پر امن زندگی کی جانب گامزن ہوں گے۔’

دوسری جانب امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کابل میں افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ موجود تھے۔

مارک ایسپر کا معاہدے کی تکمیل پر کہنا تھا کہ یہ ایک پر امید موقع ہے لیکن یہ صرف شروعات ہیں اور آگے کا راستہ آسان نہیں ہوگا۔

‘افغانستان میں مستقل امن کے حصول کے لیے صبر کا دامن سنبھالنا ہوگا اور تمام فریقین کو قربانیاں دینی ہوں گی۔’

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کی حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔

معاہدے میں کہا گیا ہے کہ دستخط کرنے کے 135 دنوں میں امریکہ اپنی فوج کی تعداد 8600 تک لے آئے گا جبکہ دیگر اتحادی ممالک بھی اپنی افواج کی تعداد میں کمی لائیں گے۔

اگر ایسا ہو جاتا ہے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نومبر 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی مہم میں یہ کہنا ممکن ہوگا کہ انھوں نے ماضی میں کیے گئے اپنے وعدوں پر عمل کیا۔

اس کے علاوہ معاہدے کے تحت 5000 زیر حراست افغان طالبان کی رہائی ممکن ہوگی جبکہ ایک ہزار کے قریب افغان فوجیوں کو دس مارچ تک رہا کر دیا جائے گا۔

توقع ہے کہ اس تاریخ تک افغان حکومت اور طالبان کے مابین گفتگو کا آغاز ہو جائے گا۔

اس معاہدے کے تحت امریکہ طالبان کے خلاف لگائی جانے والی پابندیاں اٹھا لے گا اور اقوام متحدہ سے بھی سفارش کرے گا کہ ان کی جانب سے لگائی گئیں پابندیوں کو ختم کر دیں۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ہونے والے امن معاہدے کا خیر مقدم کیا مگر ساتھ ساتھ کہا کہ یہ ‘مشروط’ معاہدے ہے۔

امریکہ کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر اور نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس سٹولٹن کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ ‘میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہ معاہدہ مشروط ہے۔ اور یہ اسی وقت پائے تکمیل کو پہنچے گا جب طالبان اپنے وعدوں پر عمل کریں گے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ افغان حکومت کے طالبان سے مذاکرات امریکہ اور طالبان مذاکرات سے زیادہ جامع ہوں گے۔

‘اس معاہدے میں چند ایسی شرائط ہیں جن کے بارے میں ہم گفتگو براہ راست طالبان سے دوران مذاکرات کریں گے۔’

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی معاہدے پر دستخط کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان امریکہ و طالبان کے مابین دوحہ معاہدے کا خیرمقدم کرتا ہے۔

‘یہ معاہدہ دہائیوں پرمحیط جنگ سمیٹنےاور افغان عوام کو مشکلات کی دلدل سےنکالنےکیلئے امن و مفاہمت کاپیش خیمہ ہے۔ میرا ہمیشہ سےیہ مو¿قف ہےکہ کتنی ہی پیچیدہ صورتحال کیوں نہ ہو، امن کا معنی خیز دروازہ سیاسی حل ہی سے کھلتا ہے۔’

دوحہ میں موجود پاکستان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی تقریب کے بعد اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ یہ خطے کے لیے بہت اہم ثابت ہوگا۔

انھوں نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت اور افغان طالبان دونوں مل بیٹھ کر اپنے اختلافات دور کریں گے اور ایسا منصوبہ پیش کریں گے جس سے افغانستان اور خطے میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ اس معاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان نے اپنا کردار بخوبی اور ذمہ داری سے نبھایا ہے اور اس معاہدے کو مکمل کرنے میں اپنی مدد فراہم کی ہے۔

مشرق وسطی کی ریاست قطر سنہ 2011 سے طالبان رہنماو¿ں کی میزبانی کر رہی ہے وہ وہاں افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

تاہم یہ عمل مشکلات سے دوچار رہا ہے۔ سنہ 2013 میں طالبان نے دوحہ میں اپنا سیاسی دفتر قائم کیا مگر اسی سال انھیں وہ دفتر بند کرنا پڑا گیا کیونکہ ان کی جانب سے جھنڈے کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ کبھی بھی جاری نہیں رکھا جا سکا۔

سال 2018 کے آخر میں طالبان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ امریکہ حکام سے ملاقات کریں گے تاکہ امن کے قیام کے لیے کوششیں دوبارہ شروع کی جائیں۔ تاہم افغان طالبان اس بات پر مصر تھے کہ وہ افغانستان کی حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے اور انھوں نے کہا کہ وہ ‘امریکہ کے پٹھو’ ہیں۔

ان مذاکرات میں امریکہ کی نمائندگی کرنے والے زلمے خلیل زاد نے گذشتہ سال ستمبر میں کہا تھا کہ امریکہ طالبان سے کیے جانے والے معاہدے کے بعد افغانستان سے 5400 فوجی اگلے 20 ہفتوں میں نکال لے گا۔

لیکن اس بیان کے چند روز بعد ہی افغانستان میں ایک امریکی فوجی کی موت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ‘مذاکرات ختم ہو گئے ہیں’ لیکن پھر چند ہفتوں بعد ہی مذاکرات میں دوبارہ آغاز ہو گیا۔

ایک ہفتہ قبل طالبان کی جانب سے کہا گیا کہ وہ ‘تشدد اور حملوں میں کمی’ کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں لیکن افغان حکام نے کہا کہ کم از کم 22 افغان فوجی اور 14 شہری اس عرصے میں طالبان کی جانب سے کیے گئے حملوں کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔

ستمبر 2011 میں جب نیو یارک اور واشنگٹن میں دو اغوا کیا گئے طیاروں سے امریکہ پر حملہ کیا گیا تو اس کے ایک ماہ بعد امریکہ نے ا±س حملے کے ذمہ دار شدت پسند گروپ القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف افغانستان میں فضائی حملے کیے۔

بین الاقوامی اتحاد نے افغانستان میں اپنے جنگی دستے 2014 میں واپس بلا لیے اور اس کے بعد سے ان کا کام صرف افغان فوج کی تربیت کرنا تھا۔ البتہ امریکہ نے اپنی موجودگی برقرار رکھی تاہم ان کی جنگی کارروائیوں میں کمی آئی۔

دوسری جانب طالبان نے اپنے حملے جاری رکھے اور وہاں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے رہے۔ گذشتہ سال بی بی سی کو معلوم ہوا کہ افغانستان کے 70 فیصد حصے پر طالبان کی موجودگی تھی۔

سنہ 2001 سے سے جاری اس جنگ میں اتحادی افواج کے 3500 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ افغان شہریوں اور شدت پسندوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

فروری 2019 میں اقوام متحدہ کی جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق اب تک 32000 شہری اور 42000 شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔

امریکی یونی ورسٹی براو¿ن کے ذیلی ادارے واٹسن انسٹٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق 58000 سکیورٹی اہلکار اور 42000 شدت پسند اس جنگ میں ہلاک ہوئے ہیں۔

طالبان سب سے پہلے 1989 میں منظر عام پر سامنے آئے جب سویت یونین کی فوجوں نے افغانستان سے انخلا کیا۔

انھوں نے 1996 میں کابل پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد اگلے دو برسوں میں انھوں نے پورے ملک پر قبضے کر لیا اور ان کے دورِ حکومت میں پورے افغانستان میں سخت شریعت کا نفاذ کیا گیا۔

طالبان نے اپنے دور میں ملک میں ٹی وی، موسیقی اور سنیما پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی جبکہ لباس کے سخت قوانین پیش کیے اور خواتین کی تعلیم پر بھی پابندیاں لگائیں۔ ان کے کسی بھی فیصلے کی خلاف ورزی کی صورت میں انتہائی سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔

امریکہ کی جانب سے حملے اور بعد میں طالبان حکومت کے باوجود انھوں نے اپنی مزاحمت جاری رکھی اور ان کی قیادت سنہ 2013 تک ملا عمر کرتے رہے۔ لیکن اس سال انتقال ہونے جانے کے باوجود طالبان نے ان کی موت کی خبر اگلے دو سال تک چھپا کے رکھی۔

اس وقت طالبان کی سربراہی ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کر رہے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here