طالبان امریکا امن معاہدے پر دستخط فروری کے آخر میں ہونیکا امکان

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

طالبان کو توقع ہے کہ اس مہینے کے آخر تک عالمی ضامنوں کی موجودگی میں امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں افغانستان میں جاری 18 سالہ جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔

عسکری پسند گروپ کے ایک سینئر لیڈر نے طالبان کی حامی ایک نیوز ایجنسی کو بتایا کہ دونوں فریقوں نے باہمی طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ قطر کے صدر مقام دوحہ میں معاہدے پر دستخطوں کی ایک تقریب کا اہتمام کریں گے۔ یہ وہ شہر ہے جس نے امریکہ اور طالبان کے درمیان 18 ماہ تک مذاکرات کی میزبانی کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ معاہدے پر دستخط ہونے کے فوراً بعد امریکہ اور افغانستان 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کر دیں گے۔ جب کہ اس کے جواب میں طالبان اپنی حراست میں موجود تقریباً ایک ہزار قیدی چھوڑیں گے۔

تاہم واشنگٹن نے اپنے اس موقف پر زور دیا ہے کہ صرف اس صورت میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر آگے بڑھا جائے گا جب طالبان افغانستان میں تشدد میں سات روز کی کمی سے متعلق ہاہمی طور پر طے شدہ سمجھوتے پر کامیابی سے عمل درآمد کریں گے۔

امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ مختصر مدت کا یہ سمجھوتہ گزشتہ ہفتے ہوا تھا اور یہ بہت جلد نافذ ہو جائے گا۔ تاہم اس بارے میں کوئی تاریخ نہیں بتائی گئی۔ جب کہ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ 22 فروری سے نافذ ہو گا۔

معاہدے کے تحت دونوں فریق سات روز تک اپنے حملے بند کر دیں گے۔ اگر دونوں فریقوں نے اپنا وعدہ پورا کیا تو وہ امن معاہدے پر دستخطوں کے لیے دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں گے۔ یہ معاہدہ گزشتہ سال ثالثوں کی موجودگی میں کئی طویل نشستوں کے بعد کاغذ پر منتقل ہوا تھا۔

معاہدے میں افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کی واپسی کے لیے نظام الاوقات طے اور اس تنازع کی فریق افغان پارٹیوں کے درمیان سیاسی مفاہمت کا عمل شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے جرمنی میں سیکیورٹی سے متعلق کانفرنس کے موقع پر کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ تشدد میں کمی ایک بہت مثبت پیش رفت ہے لیکن یہ خطرات سے خالی نہیں ہے۔

ایسپر نے یہ بھی کہا تھا کہ امن معاہدے کے نتیجے میں امریکہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 13000 سے گھٹا کر تقریباً 8600 تک لے جائے گا۔

امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ فوجیوں کی تعداد میں کمی کا تعلق طالبان افغان امن مذاکرات سے منسلک ہے۔

Share This Article
Leave a Comment