شہید عرفان،شہید نورخان کے لواحقین کاپریس کانفرنس: لاشیں نہ ملنے تک احتجاج جاری رہے گی

0
301

ضلع کیچ میں پریس کانفریس کرتے ہوئے مزن بند کے شہداء کے لواحقین کا کہنا تھا ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے پاکستانی فوج کی ظالمانہ و سفاکانہ داستان آپ کے توسط سے انسانی حقوق کے ملکی، عالمی اداروں اور مہذب دنیا کے علم میں لانا چاہتے ہیں،

انہوں نے کہا کہ میں شہید غلام مصطفی کی بیٹی شِہلا مصطفیٰ ہوں کہ25 مئی 2013 کو میرے والد کو پاکستان آرمی نے مئی 2013 میں بلوچستاں میں اپنی الیکشن کی بلوچ عوام کی جانب سے مکمل بائیکاٹ کے بعد دس سے زائد بلوچوں سمیت قتل کیا تھامیری والد کے قتل کے بعد متعدد مرتبہ تمام خاندان کے گھروں کو نذر آتش کیا گیا، پاکستان آرمی کی جانب سے میری سمیت ہماری تمام خاندان کے گھروں کو نذر آتش کرنے کے بعد نوبت یہاں تک پہنچی تھی کہ ہم کئی دنوں تک کھلے آسمان تلے بیٹھے تھے اور پانی پینے کے واسطے ایک گلاس تک بھی ہماری گھروں میں سلامت نہیں بچی تھی۔

شہلا مصطفی کا کہنا تھا 28 ستمبر کو میرے بھائی عرفان بلوچ اور نورخان بلوچ کو پاکستان آرمی نے شہید کیا تھا، ہم 29ستمبر کی صبح لاشوں کو وصول کرنے تمپ (واپڈا گریڈ)آرمی کیمپ گئے تھے تو آرمی ہمارے ساتھ انتہائی توہین و حقارت آمیز رویے سے پیش آئی اور شام تک ہمیں انتظار کرانے کے بعد ہم سے کہا گیا کہ کہ رات دس بجے آ کر شہدا کی جسد خاکی لیکر جاؤ۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پوری رات کیمپ کے سامنے انتظار کیا مگرہمیں میت نہیں دیے گئے اورباربارفوجی اہلکارہمارے پاس آکر توہین آمیز رویے سے پیش آتے رہے،ہمیں گالیاں دیتے رہے،ہم ہر طرح سے حراساں کرنے کی کوشش کی لیکن ہم اپنے پیاروں کی میت وصول کرنے کے لئے بیٹھے رہے اس کے باوجود فوج نے ہمیں میت نہیں دیئے

انہوں نے مزید کہا کہ پھر ہم نے علاقائی معتبرین سے درخواست کی کہ وہ فوج سے بات کریں جب علاقائی معتبرین نے فوج سے بات کی تومعتبرین سے کہا گیا آپ کو لاشیں کل تیس ستمبر کو ملیں گے۔

شہلا مصطفی کا کہنا تھا جب ہم تیس تاریخ کی صبح لاشوں کو وصول کرنے گئے تھے تو ہمیں معلوم ہوا کہ تمپ میں ٹریکٹر کے زریعہ گڑھا کھود کر عرفان جان اورنورخان کی لاشوں کو گھسیٹ کر آخری رسومات و جنازہ ادا کیے بغیر لاشوں کو کڑھے میں پھینک کر گڑھے میں مٹی ڈالا گیا ہے۔

مزید انہوں نے کہا ہمیں اپنے پیاروں کی شہادت پر اتنا دکھ نہیں جتنا کہ ان کی لاشوں کی بے حرمتی سے ہوا،یہ ریاست خود اسلامی و جمہوری کہتاہے یہ کون سی اسلامی قانون ہے کہ بے جان جسموں کو گھسیٹا جاتاہے،ان کی بے حرمتی کی جاتی ہے،ان کی تدفین انسانوں کے بجائے ٹریکٹر کے کھودے گئے گڑھے میں پھینک کر کی جاتی ہے۔

شہلا مصطفی کہنا تھا ان حرکات کی نہ اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ انسانی اقدار،ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بلوچ قوم سے پاکستان کی نفرت کاانتہا ہے جو ایسے غیر انسانی حرکات کی صورت میں سامنے آرہاہے۔

ابھی صورتحال یہ ہے کہ جہاں ٹریکٹر کے کھودے گئے گڑھے میں ہمارے پیارے دفن کئے گئے تھے وہیں فوج نے اپنے اہلکار تعینات کردیئے ہیں ہمیں فاتحہ تک پڑھنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

اس پریس کے ذریعے اورآپ کی توسط سے ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کی لاشیں حوالے نہ کرنے کے پیچھے اس کے سوا کوئی اور وجہ نہیں کہ انہیں کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعہ مارا گیا ہے،ان کی لاشوں کو جلایا ہے یا کسی اور طریقے سے ان کی چھیر پھاڑ کی گئی ہے کیونکہ حال ہی میں گچک کے علاقے دو نوجوانوں کی لاشوں کو نام نہاد اسلامی فوج نے ورثا کے حوالہ کرنے کے بجائے اسی طرح دفن کی تھی۔

انہوں نے کہا ہم انسانی حقوق کے ملکی ومالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان لاشوں کی اپنی نگرانی میں پوسٹ مارٹم کرائیں اگر یہ نہیں کرسکتے ہیں تو ہمیں لاشوں کو نکالنے اور بلوچی طریقے سے تجہیز و تکفین کرنے،جنازہ و آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت دی جائے۔

ہم اس پریس کانفریس میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ جب تک ہماری شہدا کی لاشیں ہماری حوالے نہیں کی جائیں گی، شہید فدا بلوچ چوک پر ہماری پر امن احتجاج جاری رہے گی اور ہماری دنیا بھر کے انسانیت دوستوں سے اپیل ہے کہ ہماری حمایت میں آگے بڑھیں کیونکہ ہمارا یہ احتجاج صرف اور صرف انسانی اقدار کے لئے ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here