برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے شہریوں کو جتنا ممکن ہو گھروں سے کام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے تیزی سے پھیلنے والی کووڈ-19 کی دوسری لہر سے نمٹنے کے لیے بارز اور ریسٹورنٹس کو جلدی بند کرنے کے احکامات جاری کردیے جبکہ پابندیاں متوقع طور پر 6 ماہ تک جاری رہیں گی۔
خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق سرکاری سائنس دانوں کی جانب سے ضروری اقدامات نہ کرنے پر ہلاکتوں میں اضافے کے خدشات کا اظہار کرنے پر وزیراعظم بورس جانسن نے پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم انہوں نے رواں برس کیے گئے لاک ڈاو¿ن کی طرح مکمل پابندیوں سے گریز کیا۔
بورس جانسن کا کہنا تھا کہ اگر کیسز میں کمی نہیں آئی تو مزید اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
وزرا اور برطانیہ کی مقامی حکومتوں کے سربراہوں سے ملاقات کے بعد پارلیمنٹ کو آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے پاس وسیع بنیادوں پر مخصوص پابندیوں کے ساتھ بڑے اقدامات کرنے کا حق ہے’۔
بورس جانسن نے شہریوں کو دفاتر میں واپس جانے کی ہدایات دینے کے محض ایک ہفتے بعد کہا کہ دفاتر میں کام کرنے والے افراد اگر ہوسکتا ہے تو گھروں سے کام کریں۔
خیال رہے کہ بورس جانسن نے ایک ہفتہ قبل ہی شہریوں پر دفاتر جانے کے لیے زور دیا تھا لیکن اب بارز، ریسٹورنٹس اور دیگر مقامات کو رات 10 بجے تک بند کرنے کا حکم دے دیا ہے تاہم ٹیبل سروس کی اجازت ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ اس سے کئی کاروبار جو بحال ہورہے تھے وہ متاثر ہوں گے’۔
رپورٹ کے مطابق تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ کیا یہ اقدامات برطانیہ میں کورونا کی دوسری لہر سے نمٹنے کے لیے کافی ہوں گے جہاں سائنس دانوں نے خبردار کیا تھا کہ اکتوبر کے وسط تک برطانیہ میں کورونا وائرس کے کیسز کی روزانہ کی تعداد 50 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔
سائنس دانوں کی تنبیہ سے یہ اشارہ دیا گیا کہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کو خطرات کا سامنا ہوگا۔
وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ مزید اقدامات کے لیے زیادہ ماسکس کی ضرورت پڑے گی، قواعد و ضوابط سخت کرنے اور پولیس کی آسانی کے لیے فوج کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں اسکول اور جامعات بدستور کھلی رہیں گی۔
کووڈ-19 سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کاروبار پر 10 ہزار پائونڈ (13ہزار ڈالر) تک جرمانہ یا بندش کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ مخصوص مقامات پر ماسک نہ پہننے کی صورت میں انفرادی طور پر 200 پائونڈ کا جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
بورس جانسن نے کہا کہ عوام کی اکثریت قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو قابل تشویش ہے جبکہ تھوڑے سے لوگ قانون کی پاسداری کر رہے ہیں۔
برطانیہ میں حالات جرمنی اور اٹلی سے زیادہ خراب ہونے سے متعلق سوال پر انہوں نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ‘دنیا کے دیگر ممالک اور ہمارے ملک میں فرق ہے، جن میں سے ایک ہمارے ملک میں آزادی ہے اور برطانوی عوام کو جبری طور پر قواعد پر عمل درآمد کروانا مشکل کام ہے’۔
خیال رہے کہ برطانیہ پورے یورپ میں کووڈ-19 سے سب سے زیادہ ہلاکتوں کا حامل ملک ہے جہاں اب تک 41 ہزار 788 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
بینک آف انگلینڈ کے گورنر اینڈریو بیلے نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے کووڈ-19کے کیسز میں اضافے سے معاشی طور پر خطرات میں اضافہ ہوا ہے اور مرکزی بینک کے لیے مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں کہ کس طرح معاشی امور میں تعاون کیا جائے۔
وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ ہم ان لوگوں کی بات نہیں سنیں گے جو کہتے ہیں وائرس کو پھیلنے دیں یا پھر مستقل لاک ڈائون کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم شہریوں کی جانیں بچانے، روزگار اور ذریعہ معاش کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن اقدامات کر رہے ہیں۔