بھارتی وزیر اقلیتی امور اور اروناچل پرادیش سے رکن پارلیمنٹ کیرن ریجیجو نے کہا ہے کہ بھارت کی فوج نے متنازع سرحدی علاقے سے پیپلزلیبریشن آرمی (پی ایل اے) کی جانب سے 5 شہریوں کے اغوا کے الزامات سے چین کو آگاہ کردیا۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر اقلیتی امور کیرن ریجیجو نے کہا کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے قائم فوجی ہاٹ لائن کوشہریوں کے ممکنہ اغوا کے حوالے سے فعال کردیا گیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ‘بھارتی فوج نے اروناچل پرادیش میں سرحد پر پی ایل اے کوہاٹ لائن کے ذریعے پیغام بھیجا ہے اور جواب کا انتظار کررہے ہیں’۔
بھارت کی شمال مشرقی ریاست کی پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ وہ فیس بک پرایک مغوی کے رشتے دار کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کی تحقیق کررہے ہیں کہ پی ایل اے نے شہریوں کو اغوا کیا ہے۔
مقامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق شہری سرحدی علاقے میں شکارکے لیے گئے تھے اور مبینہ طور پر غائب ہوگئے جبکہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کب لاپتہ ہوئے۔
واضح رہے کہ متنازع سرحد پر شہریوں کے مبینہ اغوا کا واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین اور بھارت کے وزرائے دفاع ماسکو میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں غیررسمی ملاقات کرچکے ہیں۔
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمالیائی سرحد اور دنیا کے گنجان آباد ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات سے متعلق کھل کر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ‘کسی بھی فریق کو کوئی مزید ایسی کارروائی نہیں کرنی چاہیے جس سے یا توحالات مزید پیچیدہ ہوجائیں یا سرحدی علاقوں میں معاملات کشیدہ ہوں’۔
چین کی وزارت دفاع نے اپنی ویب سائٹ پر اس اجلاس کے بارے میں اپنا بیان جاری کیا، جس کے مطابق جنرل وی فینگی کا کہنا تھا کہ فریقین کو امن و استحکام کو فروغ دینا چاہیے اور موجودہ تناو¿ کو کم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ کئی ماہ سے مغربی ہمالیائی حصے میں فوجیں موجود ہیں جہاں دونوں فریقین ایک دوسرے پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف وزری کا الزام لگاتے ہیں۔
قبل ازیں 20 جون کو گالوان وادی میں کشیدگی کے دوران 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد دونوں فریق پیچھے ہٹنے پر رضامند ہوئے تھے۔
تاہم مذاکرات کے کئی دور کے باوجود مختلف مقامات پر فوجیں آمنے سامنے ہیں جس میں انتہائی بلندی کا مقام پیانگونگ تسو جھیل بھی شامل ہے جس کے بارے میں دونوں ممالک دعویٰ کرتے ہیں۔
31 اگست کو چین اور بھارت دونوں نے ہمالیہ کی سرحد پر ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے پر اشتعال انگیزی کے الزامات عائد کیے تھے۔
بھارتی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’29 اور 30 اگست 2020 کی درمیانی شب کو پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے لداخ کے مشرقی حصے میں جاری کشیدگی کے دوران فوجی اور سفارتی رابطوں کے دوران ہونے والے گزشتہ اتفاق رائے کی خلاف ورزی کی اور اشتعال انگیز فوجی نقل و حرکت کی تاکہ حیثیت کو تبدیل کیا جائے’۔
چین کی فوج نے جواب میں کہا تھا کہ بھارتی فوج نے 4200 میٹر بلندی پر واقع جھیل کے قریب پینگونگ تسو کے مقام پر سرحد عبور کی اور اشتعال انگیزی کرتے ہوئے سرحد میں حالات میں تناو¿ پیدا کردیا۔
پیپلز لبریشن آرمی ریجنل کمانڈ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ چینی فوج اس تمام کارروائی کے انسداد کے لیے ضروری اقدامات کر رہی ہے کیونکہ بھارت علاقائی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کا احترام کیا اور کبھی بھی اسے عبور نہیں کیا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ڑاو¿ لیجیان نے کہا تھا کہ دونوں اطراف کے سرحدی فوجی دستوں نے زمینی مسائل پر مواصلاتی رابطہ برقرار رکھا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان تقریباً 3500 کلومیٹر (2 ہزار میل) طویل سرحد پر تنازع ہے اور اسی وجہ سے 1962 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہو ئی تھی، تاہم نصف صدی کے دوران رواں موسم گرما میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھی۔