سفارتی مذاکرات کے باوجود لداخ میں کشیدگی جاری ہے، بھارتی وزیرِ خارجہ

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے مشرقی لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان جاری کشیدگی اور جھڑپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورت حال یقیناً 1962 کی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے سنگین صورت حال ہے۔

ان کے بقول 45 برسوں میں پہلی بار ا±س سرحد پر فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر دونوں جانب اس وقت جتنے فوجی تعینات ہیں، پہلے کبھی نہیں تھے۔

بھارت کے ویب پورٹل ‘ریڈیف ڈاٹ کام’ کو انٹرویو میں ایس جے شنکر کا کہنا تھا کہ بھارت نے واضع طور پر چین کو بتا دیا ہے کہ سرحدی علاقے میں امن و استحکام کا قیام دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کی بنیاد ہے۔

ان کے بقول دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور فوجی سطح پر مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود مشرقی لداخ میں ساڑھے تین ماہ سے کشیدگی ہے اور دونوں جانب کی افواج ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔

انہوں نے ماضی کی کشیدگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی ایسی صورتِ حال پیدا ہوئی، اسے سفارت کاری کی مدد سے حل کیا گیا۔ اگر آپ گزشتہ عشرے پر نظر ڈالیں تو دیپسانگ، چومار اور ڈوکلام کے مقامات پر کشیدگی ہوئی تھی۔ حالاںکہ ہر معاملہ ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ موجودہ صورتِ حال بھی مختلف ہے۔

ان کے مطابق ان تمام واقعات میں جو بات مشترک ہے وہ یہ ہے کہ تمام سرحدی تنازعات سفارت کاری کی مدد سے حل ہوئے۔

وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ موجودہ تعطل کو ایل اے سی کو یک طرفہ طور پر تبدیل کیے بغیر، تمام معاہدوں اور افہام و تفہیم سے دور کیا جا سکتا ہے۔

مشرقی لداخ میں مئی سے ہی دونوں ممالک میں کشیدگی ہے۔ 15 جون کو گلوان وادی میں دونوں ملکوں کے فوجیوں میں پرتشدد ٹکراو¿ ہوا تھا جس میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

دونوں میں سفارتی اور فوجی سطح پر مذاکرات کے متعدد ادوار ہو چکے ہیں اور ہر بات چیت میں متنازع مقامات سے فوجیوں کی واپسی پر اتفاق رائے ہوتا ہے، لیکن اس پر مکمل طور پر عمل نہیں ہو پاتا۔

بھارتی اردو اخبار ‘چوتھی دنیا’ کے ایڈیٹر، سینئر صحافی اور تجزیہ کار سنتوش بھارتیہ نے لداخ کے مسئلے پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر وزیرِ اعظم نریندر مودی اور صدر شی جن پنگ ایک بار فون پر بات کر لیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

ان کے بقول سمجھ میں نہیں آتا کہ دونوں بات کیوں نہیں کر رہے۔ شاید عالمی صورتِ حال اس میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف چین ہے۔ درمیان میں روس ہے اور دوسری طرف امریکہ ہے۔ ان سب کے درمیان ہمیں نہیں معلوم کہ فرانس کا رخ کیا ہو گا۔ عالمی طاقتوں کی جو تنظیم نو ہو رہی ہے اس کے درمیان کون سی طاقت اس مسئلے کو بگاڑ رہی ہے ہمیں نہیں معلوم۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کو ایک مشورہ دیا جا رہا ہے۔ چینی صدر کو دوسرا اور بھارتی وزیرِ اعظم مودی کو کوئی اور ہی مشورہ دیا جا رہا ہے۔

قبل ازیں چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے بھارتی روزنامے ‘ہندوستان ٹائمز’ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو فوجی کارروائی کا متبادل موجود ہے۔

بھارت میں چین کے سفیر سن وی ڈانگ نے دو روز قبل کہا تھا کہ گلوان وادی میں جو کچھ ہوا وہ افسوس ناک ہے۔ چین اور بھارت دوبارہ ایسا واقعہ دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔

‘چائنا انڈیا یوتھ ویبینار’ سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ فریقین اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مذکورہ واقعہ تاریخ کے تناظر میں ایک مختصر لمحہ تھا۔

Share This Article
Leave a Comment