فلسطین ،ترکی وایران کی اسرائیل ومتحدہ عرب امارات معاہدہ پر تنقید

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر فلسطین، ایران، ترکی اور بعض مزاحمتی تنظیموں نے اس پر کڑی تنقید کی ہے۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان جمعرات کو سفارتی تعلقات اور فلسطین کے مغربی کنارے کے اسرائیل کے ساتھ انضمام کو روکنے سے متعلق ایک معاہدہ طے پایا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلد ٹرمپ نے جمعرات کو یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جب کہ متحدہ عرب امارات کے رہنما شیخ زید النیہان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ٹیلی فون کال کے دوران ایک معاہدے پر پہنچے ہیں تاکہ اسرائیل کو مزید فلسطینی علاقے ضم کرنے سے روکا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے باہمی تعلقات کے قیام سمیت مستقبل میں ایک ساتھ چلنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

خلیجی ملکوں کے اخبارات نے اس خبر کو اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دی ہے۔

دوسری جانب فلسطین نے اس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اسے دھوکہ قرار دیا ہے۔

فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر واپس بلانے سمیت عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

ایران نے اس معاہدے کو خطرناک اور ناجائز قرار دیا ہے۔ ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ‘آئی آر این اے’ کے مطابق ایرانی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا اقدام شرمناک ہے۔ متحدہ عرب امارات اپنے اقدام کے نتائج کا خود ذمہ دار ہو گا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا اقدام فلسطینیوں کی کمر میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔

ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ فلسطین کے معاملے پر متحدہ عرب امارات کو اسرائیل سے مذاکرات کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ خطے کے لوگ متحدہ عرب امارات کا منافقانہ رویہ کبھی نہیں بھولیں گے اور اس عمل پر اسے کبھی معاف نہیں کریں گے۔

فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے نے فلسطینیوں کے مقاصد پر کاری ضرب لگائی ہے اور اس سے اسرائیل کو قبضے کا موقع ملے گا۔

حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے فلسطین کے صدر محمود عباس سے فون پر گفتگو کی ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے کو مسترد کرتے ہیں۔

سعودی عرب کی جانب سے اب تک سرکاری طور پر کوئی بیان سامنے ںہیں آیا ہے تاہم سعودی شہری سوشل میڈیا پر اس معاہدے پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment