بلوچ یکجہتی کمیٹی( بی وائی سی ) نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے بحیثیتِ آمر کے شہری حقوق پر بدترین قدغن عائد کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز کوئٹہ میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر ایک چار دیواری کے احاطے میں ایک آگاہی سیمینار منعقد کیا گیا، جس کے نتیجے میں نہ کسی سڑک کی بندش ہوئی اور نہ ہی ریاستی امور میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس کے باوجود، سیمینار میں شرکت کرنے کے شبے میں ایک ہی خاندان کے چار افراد کو گزشتہ شب سریاب تھانے طلب کیا گیا اور بعد ازاں انہیں جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔
ان کا کہناتھا کہ جب اگلی صبح ان افراد کی بازیابی کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تو متاثرین کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے جج کو مطلع کیا گیا کہ انہیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں تھری ایم پی او کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے، جبکہ اس حوالے سے کوئی قانونی دستاویزات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔ یہ صورتحال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس وقت بلوچستان میں عملاً ایک غیر اعلانیہ فوجی مارشل لا نافذ ہے، جس میں ججز سے لے کر ڈپٹی کمشنرز تک سب فوج اور خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر غیر وردی والے فوجی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کسی پروگرام کا انعقاد بذاتِ خود ایک بنیادی انسانی اور آئینی حق ہے، مگر محض اس بنیاد پر ایک خاندان کے چار افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا اور بعد ازاں بغیر کسی قانونی جواز کے تھری ایم پی او کے تحت قید میں رکھنا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ریاستِ پاکستان بلوچستان کو ایک کالونی کے طرز پر چلا رہی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ جس حد تک ریاست کھلے عام جبر اور استبداد کا مظاہرہ کر رہی ہے، اسی حد تک یہ حقیقت بھی واضح ہوتی جا رہی ہے کہ آج اس معاشرے میں اصل مجرم ریاست اور اس کے آلۂ کار ہیں، جبکہ جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید افراد پسے ہوئے اور محکوم طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کالونیل نظام سے نجات کے لیے ہر باشعور فرد کو ہر قسم کے تفریق سے بالاتر ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی، بصورتِ دیگر اس بدترین فسطائی دور میں ہم سب کسی نہ کسی شکل میں جبر کا شکار بنتے رہیں گے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سے پُرزور اپیل کرتی ہے کہ وہ اس ریاستی جبر کے خلاف مؤثر اور عملی اقدامات کریں۔ اس موقع پر خاموشی اختیار کرنا درحقیقت جبر کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔