آزادی اُن کے نصیب میں لکھی جاتی ہے جو خواب دیکھنے اور ان خوابوں کے لیے لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
چی گویرا کا قول ہے حقیقی انقلابی وہ ہے جو اپنے مقصد کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہو۔
یہ دھرتی جسے ہم وطن کہتے ہیں، محض مٹی کا ٹکڑا نہیں بلکہ انسان کی روح کا وہ مقدس مرکز ہے جہاں اس کی شناخت ، اس کا ماضی، اس کی آنکھوں کے خواب اور اس کے دل کی دھڑکن ایک دوسرے میں گھل مل جاتی ہیں۔ آزادی وہ لطیف مگر سخت گیر سچائی ہے جس کے بغیر انسان اپنی ہی زندگی میں اجنبی بن جاتا ہے۔ جو لوگ وطن کیلئے مر مٹنے کا حوصلہ رکھتے ہیں وہ دراصل خود کو فنا نہیں کرتے بلکہ اپنے وجود کو ایک بڑے اٹل اور دائمی مقصد میں ضم کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ جسم کی موت انجام ہے مگر نظریے کی موت شکست ہے اس لئے وہ اپنی سانسوں سے آگے بڑھ کر تاریخ کے اس صفحے پر اپنا نام لکھتے ہیں جہاں عشقِ وطن قربانی، اور آزادی کے غیر فانی اصول ابد تک روشن رہتے ہیں۔
بلوچ قومی تحریک کی جدوجہد میں سینکڑوں بلوچ نوجوان نے عزم و ثابت قدمی کے ساتھ سامراجی طاقتوں کا مقابلہ کیا ۔ سینکڑوں زندانوں کی تاریکیوں میں بھی وہ دشمن کے جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرتے ہوئے عزم و ہمت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس راستے میں بے شمار جانباز اپنی جان نچھاور کر کے امر ہو چکے ہیں، مگر ان کی قربانیوں کا یہ قافلہ آج بھی پوری شانِ استقامت کے ساتھ رواں دواں ہے۔ یہ وہ کاروان ہے جو ظلم کی سنگین دیواروں کو توڑتے ہوئے امید حوصلے اور آزادی کے خواب کو مسلسل آگے بڑھا رہا ہے۔
اس کارروانِ جدوجہد کا ایک باہمت ساتھی، ایک سرمچار، وطن کا بہادر فرزند عنایت ساحل تھا۔ وہ ایک ایسے نوجوان تھا جس نے سامراجی اداروں کی بنائی ہوئی تعلیم تو نہیں پائی مگر وہ قوم آزادی اور مزاحمت کے شعور سے پوری طرح مالا مال تھا۔ گچک سولیر کے دورافتادہ اور محروم خطے سے اُبھرنے والے اس نوجوان نے قومی آزادی کی راہ میں وہ قربانی دی جس کے لیے فولادی ہمت سچا ایقان اور بے خوف دل چاہیئے ہوتا ہے۔
عنایت ساحل صرف ایک فرد نہیں تھا وہ آزادی کی مشعل ،مزاحمت کی صدا اور اپنے وطن کی روح کا نوحہ بھی تھا۔
سردیوں کی دھند میں لپٹا ہوا شام کا وہ لمحہ جب سورج ڈھل چکا تھا اور پہاڑ اپنے سائے لمبے کر چکے تھے ساحل اپنے فدائی ساتھیوں کے ہمراہ زادِ سفر سنبھالے آگے بڑھ رہا تھا۔ یہ سفر صرف راستوں کا نہیں تھا یہ فیصلہ قربانی اور عزم کا سفر تھا۔ اور پھر وہ گھڑی آ پہنچی جس نے تاریخ کی آنکھوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جانا تھا۔ زرینہ ماہو کی گاڑی سے لپکتے شعلے اور انہی شعلوں کی روشنی میں سرمچاروں کا برق کی طرح چاغی کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر کی جانب لپک جانا اگلے ہی لمحوں میں دھرتی نے فدائیوں کے قدموں کی گونج سنی اور دشمن نے اُن کاری ضربوں کا وزن محسوس کیا جو ساحل اور اس کے فدائی ساتھیوں نے تاریخ کے سینے پر ثبت کئے۔
اس حملے کے بعد بحثوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی کہنے والوں کی بھیڑ اُمڈ آئی مگر ان آوازوں کے باوجود ایک حقیقت پورے خطّے پر واضح تھی، دشمن لرز گئے تھے اور ساتھیوں کے دلوں میں نئی امید نے جنم لیا تھا، بلوچ مزاحمت ایک اور قدم آگے بڑھ چکی تھی۔ یہ قربانی کا سفر پہلے سے زیادہ مضبوط ، زیادہ پختہ اور زیادہ روشن ہو گیا۔ شجاعت کی یہ گونج، وطن کے فرزندوں کے بہائے گئے لہو کی مہک بن کر چاغی کے کوہساروں اور وادیوں میں پھیل گئی تھی۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں یہ وطن کی اس سرزمین کی اور بلوچستان کی دیرینہ جدوجہد کا مسلسل جاری رہنے والا باب تھا۔
بلوچ سرزمین کے دفاع میں زرینہ ماھو، عنایت ساحل اور اُن کے سرمچار وطن کی راہ میں قربان ہو گئے مگر اس جدوجہد نے دشمن کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ بلوچ نوجوان اپنی دھرتی کے تحفظ کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔
چاغی سونے کا گلدستہ :
چاغی رقبے کے اعتبار سے بلوچستان کا سب سے بڑا ضلع ہے جو تقریباً 44000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس خطے کی اسٹریٹیجک اہمیت کا ایک بڑا حصہ اس حقیقت سے جڑا ہے کہ 28 مئی 1998 کے ایٹمی تجربات جنہیں سامراجیوں نے یومِ تکبیر کا نام دیا ہے ، اسی ضلع کے راسکوہ (Chagai Hills) میں کیے گئے تھے جس نے اسے عالمی سطح پر بھی نمایاں بنایا۔
معدنی وسائل اور معاشی اہمیت:
چاغی کو معدنیات کی وجہ سے بلوچستان کا سب سے زیادہ قیمتی خطہ سمجھا جاتا ہے، دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ریکوڈک اور سیندک کے علاقے دنیا کے بڑے تانبے اور سونے کے ذخائر میں شمار ہوتے ہیں۔
تخمینوں کے مطابق یہاں تانبے (Copper) کے ذخائر اڑھائی کروڑ ٹن سے زائد ہیں اورسونے (Gold) کے ذخائر تقریباً 20 ملین اونس سے زیادہ اور مولبڈینم، کرومائیٹ، آئرن، لیڈ، زنک، اور قیمتی خاکی دھاتیں (Rare Earth Minerals) بھی نمایاں مقدار میں موجود ہیں۔چینی کمپنی Metallurgical Corporation of China (MCC) گزشتہ دو دہائیوں سے سیندک میں کانکنی کے منصوبے چلا رہی ہے۔
سرکاری کنٹریکٹس کے مطابق سیندک منصوبے سے پاکستان کو سالانہ تقریباً 70 ملیں ڈالر ریونیو ملتا ہے جوکہ بلوچ نسل کشی کے خلاف استعمال ہورہاہے ۔ظاہرہے کہ یہ عام نمبر ہے اور حقیقت میں یہ رقم اس سے کئی گنا بڑا ہوگا ۔جبکہ نمونے کی نقل و حمل، پروسیسنگ اور دھاتوں کی خالص شکل میں کمی کی وجہ سے اصل منافع کا بڑا حصہ بیرونِ ملک خاص کر چین کو جاتاہے۔
ظاہر ہے کہ اس سے بلوچستان اور بلوچوں کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا بلکہ یہ رقم بلوچوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔گوادر سے چاغی تک پھیلی دھرتی پر بلوچ قوم نے دہائیوں سے ایک ایسے نظام کا سامنا کیا ہے جو انہیں ان کی آواز ان کی شناخت اور ان کے حقِ موجودگی تک سے محروم کرتا رہا ہے جب کوئی لب کھولے تو اسے خاموشی کی دیواروں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے جب کوئی قلم اٹھائے یا سیاسی راستہ اپنائے تو اسے جبر کے اندھیروں میں گم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں قوموں کے پاس صرف ایک راستہ بچتا ہے حق وقار اور آزادی کے لئے انقلابی جدوجہد۔
یہ جدوجہد بندوق کی گولی سے سچ کی طاقت، شعور کی بیداری، اجتماعی اور سیاسی مزاحمت سے سامراج کے مقابل ڈٹ جانے کے حوصلے سے جنم لیتی ہے ۔ بلوچ عوام کی یہی بیداری آج سب سے بڑی قوت ہے ،وہ قوت جو استحصال کے ہر دروازے کو چیلنج کرتی ہے اور محکومیت کی ہر زنجیر کو توڑنے کا اعلان کرتی ہے۔
٭٭٭