نوکنڈی حملے کے بعد بلوچستان بھر میں پاکستانی فورسز نے اپنی ماورائے آئین و قانون جبری گمشدگیوں کی پالیسی کو مزید وسعت دیکر بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 6 طالب علم سمیت 7 افراد کو جبری لاپتہ کردیا ہے ۔
جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے گئے 7 نوجوانوں میں 6 طالب علم شامل ہیں جبکہ ایک ڈرائیور ہے ۔
جبری لاپتہ کئے گئے نوجوانوں کی شناخت طالب علم سید احمد شاہ ولد سید ظاہر شاہ، طالب علم نور خان ولد نذرمحمد،طالب علم ندیم کرد ولد مہیم خان، طالب علم فرید کرد ولد محمد رفیق، طالب علم حیر بیار بلوچ ولد محمد اسحاق،طالب علم افضل بلوچ ولد مہراب دین اور ڈرائیور بیبرگ قمبرانی ولد غلام عباس کے ناموں سے ہوگئی ہے ۔
مذکورہ نوجوانوں کو مستونگ،تربت ، اور کوئٹہ سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔
سید احمد شاہ ولد سید ظاہر شاہ یونیورسٹی آف بلوچستان میں شعبہ تعلیم کے طالب علم ہیں ،جنہیں یکم دسمبر کی رات تقریباً دس بجے خفیہ اداروں نے جبری طور پر لاپتہ کردیا۔
طالب علم کو بلوچستان یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے سے جبری لاپتہ کیا گیا۔ موقع پر موجود افراد کا کہنا ہے کہ ایک کالی شیشوں والی گاڑی سے مسلح افراد اترے اور نوجوان زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے۔
ندیم کرد ولد مہیم خان کرد سکنہ جلب گندان اور فرید کرد ولد محمد رفیق کرد سکنہ ریلوے سوسائٹی کوئٹہ کو مستونگ کے علاقے دشت، جلب گندان سے فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کردیا۔
تربت یونیورسٹی میں شعبہ بلوچی کے طالب علم نورخان ولد نذر محمدجو سردشت کلانچ پسنی کا رہائشی ہیں کو گزشتہ رات تربت سے سی ٹی ڈی نے 5 دسمبر 2025 کی شب 12:30 بجے تربت کے قندیل پلازہ سے حراست میں لیکر نامعلوم قمام پر منتقل کردیا۔
لاپتہ نور خان نذر بلوچی زبان میں شاعری کرتے ہیں اور ملا اسماعیل لبزانکی گل کے رکن ہیں۔
طالب علم افضل بلوچ ، طالب علم حیربیار بلوچ اور ڈرائیور بیبرگ قمبرانی کوکلی سہراب خان قمبرانی سے 6 دسمبر کو فورسز نے حراست میں لینے کے بعد جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا۔
ندیم کرد ، سکنہ جلب گندان اور فرید کرد سکنہ ریلوے سوسائٹی کوئٹہ کو مستونگ کے علاقے دشت، جلب گندان سے فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا۔