قربانی کا فلسفہ اور بی ایل ایف کی نئی جنگی حکمت عملی | دودا بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
13 Min Read

دنیا کی تاریخ میں جنگِ آزادی ایک ایسا فلسفیانہ باب ہے جو خون، قربانی اور جدوجہد سے لکھا گیا ہے۔ لفظ "جنگ” محض تین حروف پر مشتمل نہیں، بلکہ اپنے اندر پوری تاریخ، صدیوں کی کہانیاں، قربانیاں، امیدیں اور وہ خواب سموئے ہوئے ہے جو جنگ کو مزید خوفناک بھی بناتے ہیں اور معنی خیز بھی۔

کیونکہ جنگ صرف دو لشکروں کے ٹکراؤ کا نام نہیں، بلکہ یہ تباہی اور بقا کی دو متضاد قوتوں کا اظہار ہے۔

ایک عام انسان کی نظر میں جنگ کے دو رخ ہیں:

پہلا رخ تباہی کا ہے۔ وہ جنگ کو بربادی، ملبے کے ڈھیروں، یتیم بچوں، بیوہ عورتوں اور بے سہارا بوڑھوں کی صورت میں دیکھتا ہے۔ جنگ دلوں میں خوف بٹھا دیتی ہے، نسلوں کی بنیادیں ہلا دیتی ہے، اور امن و محبت کے ماحول کو نفرت اور بے یقینی میں بدل دیتی ہے۔ اسی لیے ہر معصوم دل چاہتا ہے کہ جنگ نہ ہو،صرف امن ہو، محبت ہو، زندگی ہو۔

لیکن جنگ کا دوسرا رخ اُن لوگوں کے سامنے کھلتا ہے جو خود میدانِ جنگ میں کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ جنگ کو مجبوری نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی سرزمین، اپنے لوگوں اور آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی خاطر لڑتے ہیں۔ ان کے نزدیک جنگ ایک مقدس قربانی ہے،اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے،بلوچ قوم اسی دوسرے فلسفے پر عمل پیرا ہے۔

جنگ کا فلسفہ دراصل اسی حقیقت پر مبنی ہے کہ دنیا میں طاقت ہی طاقت کو روک سکتی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔اسی طرح کبھی کبھی بربادی ہی نئی صبح کا آغاز بن جاتی ہے۔ آج بلوچ سرمچار بھی اسی امید کے ساتھ لڑ رہے ہیں کہ ایک دن نئی صبح کا سورج طلوع ہوگا۔

اب بات کرتے ہیں بی ایل ایف کی بڑھتی طاقت، منظم حکمتِ عملی اور فدائی حملے کے بارے میں ۔

بی ایل ایف کی پہلی فدائی بٹالین: ’’سوب‘‘

30 نومبر 2025 کی رات 8 بجے بلوچستان کہ بہادر سپوتوں اور بی ایل ایف کے سوب بٹالین نے بلوچستان کے شہر چاغی میں برگیڈ ہیڈ کواٹر پر ایک کاری ضرب لگائی جس سے نہ صرف قابض کی دیواریں زمیں بوس ہوئیں بلکہ ان سرمایہ کاروں کے خواب بھی چکناچور ہوئے جو دنیا کی دولت مند ترین علاقوں میں جیسے چاغی میں سرمایہ کرنا چاہتے ہیں یا کررہے ہیں اس کے بعد ان کیلئے یقیناً سوچنے کا مقام ہوگا کہ کیا بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے خلاف یہاں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے ؟

30 نومبر 2025 کی شام 8 بجے بلوچستان کے سرحدی شہر نوکنڈی سے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ایف سی کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پرمسلح افراد نے حملہ کیا ہے۔ ( جہاں استحصالی سرمایہ داروں کے کوارٹرز بھی موجود ہیں )۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ آور سخت سیکیورٹی کے باوجود مرکزی کمپاؤنڈ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔حملے کی نوعیت اور اور شدت نے ہر طرف سوالات کھڑے کر دیے۔ بہت سے لوگ اس حملے کو بی ایل اے مجید بریگیڈ سے جوڑ رہے تھے، کیونکہ ماضی میں اسی نوعیت کے حملے مجید بریگیڈ کرتا آرہاہے اور بلوچ قومی کاز کا اہم ستون بھی ہے۔

تاہم صورتحال اس وقت واضح ہوئی جب ایک گھنٹے بعد بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے میڈیا چینل نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے نوکنڈی حملے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔

مزید کہاگیا کہ سوب کے سرمچاروں نے نوکنڈی میں ریکوڈک اور سیندک منصوبوں سے وابستہ غیر ملکی عملے اور انجینئرز کے لیے قائم مرکزی کمپاؤنڈ پر شدید حملہ کیا ہے جو تاحال جاری ہے۔ تفصیلی بیان بعد میں جاری کیا جائے گا۔

یہ خبر دشمن کے لیے ایک نہ بھرنے والے زخم کی طرح پھیل رہی تھی، جس کی امید شاید انہیں نہیں تھی۔ یہ حملہ صرف ایک کمپاؤنڈ پر نہیں تھا بلکہ دشمن کی شہ رگ پر وار تھا کیونکہ پچھلے دو مہینے سے بلوچستان بھر میں نیٹ بند ہے اور سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔ اس کے باوجود بی ایل ایف نے ایسی جگہ پر وار کیا ہے جہاں دشمن نے کبھی گمان نہیں کیا تھا۔

بی ایل ایف نے اپنی طاقت کا مظاہرہ ایک ایسے حساس علاقے میں کیا ہے جہاں ایک طرف ریکوڈک اور سیندک کے منصوبے ہیں اور دوسری طرف فوجی نقطۂ نظر سے یہ ایک تزویراتی علاقہ ہے جس کے چاروں طرف سخت سیکیورٹی ہے ،اس لئے یہ کارروائی نہ صرف بی ایل ایف کی منظم حکمتِ عملی اور عملی صلاحیت کا اظہار ہے بلکہ اس بات کی علامت بھی ہے کہ تنظیم اپنی سرگرمیوں کو انتہائی حساس اور سخت نگرانی والے علاقوں تک پھیلانے کی اہلیت رکھتی ہے۔

ریکوڈک اور سیندک جیسے بڑے منصوبوں کے عین وسط میں اس نوعیت کا حملہ دشمن کے لیے یہ پیغام تھا کہ بلوچ فرزند کے لئے سخت سے سخت ترین سیکیورٹی حصار بھی ناقابلِ تسخیر نہیں ۔اس حملہ سے پرویز مشروف کا ایک کہاوت سوشل میڈیا پر کافی گردش کررہا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ میں بلوچوں کو ایسی جگہ پر ماروں گا کہ جس کا وہ سوچ نہیں سکتے لیکن مشرف تو چلاگیا البتہ بلوچ سرمچاروں نے ایسے جگہ پر وار کیا جہاں مشرف کے باقیات اشرافیہ نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

اگر اس حملہ کی تجزیہ کیا جائے تو اس صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نوکنڈی حملہ محض بلوچستان کہ اندر باقی حملوں کی طرح صرف ایک کیمپ پر حملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک ایسی کارروائی تھی جس نے بی ایل ایف کی بدلتی ہوئی حکمتِ عملی اور مؤثر منصوبہ بندی کو نمایاں کردیا کیونکہ نوکنڈی کا مرکزی کمپاؤنڈ ایک ایسے مقام پر ہے جسے عام طور پر غیرمرئی سمجھا جاتا تھا۔ایک طرف حساس عسکری موجودگی ،دوسری طرف عالمی اقتصادی دلچسپیوں سے جڑا ریکوڈک اور سیندک کا مقام۔

اس مقام پر حملے سے بظاہر بی ایل ایف نے اپنے اہداف کے انتخاب میں ایک نئے سوچ کی بنیاد ڈال دی ہے۔ کیونکہ بی ایل ایف ” سوب” سے قبل قربان یونٹ کے نام سے فوجی کیمپوں پر حملہ اور ان پر کامیابی سے کنٹرول کرتا رہا ہے ۔ لیکن فدائی حملہ پہلی دفعہ بی ایل ایف کررہا ہے اور نوکنڈی حملے کے بعد (بی ایل ایف) نے اپنی پہلی فدائی بٹالین کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا۔ اس یونٹ کو ’’سوب‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جس کی مکمل تعبیر سدو آپریشنل بٹالین ہے۔ تنظیم کے مطابق اس بٹالین کا نام معروف گوریلا کمانڈر شہید سدو مری کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے طور پر رکھا گیا ہے۔

اگر سدو بٹالیں کو دیکھا جائے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ بی ایل ایف نے اپنی پالیسیز کو مزید بہتر،منظم اور مربوط کیا ہے تاکہ پاکستان کو نفسیاتی شکست کے ساتھ بلوچستان کے اندر بڑھتی ہوئی عالمی مفادات کو نقصان پہنچانااور عالمی طاقتوں کو نفسیاتی دبائو میں ڈالنا ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنی سرمایہ کاری کو روک دیں۔

اگرچہ پاکستان اپنی پروپیگنڈا کے ذریعے ہمیشہ ایسے حملوں کو ناکام قرار دینے کی کوشش کرتا رہا ہے، لیکن اس طرح کا حملے پاکستان اور اس کے شراکت داروں کے لیے ایک بڑا نفسیاتی دباؤ پیدا کر رہے ہیں جو کہ (بی ایل ایف )کی کامیاب حکمت عملی کو ثابت کرئے گا ۔

جنگوں میں نفسیاتی اثر اور طاقت کا تاثر:

گوریلا جنگ ایک نفسیاتی جنگ ہے جہاں دشمن کو جانی نقصان سے زیادہ ذ ہنی مریض بنانا اور اسکی مورال کو کم کرناہے ۔ اور دشمن کامورال اس وقت کم ہوجاتا ہے جب وہ اس مقام پر گمان نہیں کرتا کہ حملہ ہوگا اور پھر اچانک حملہ ہوجاتا ہے۔ حملہ آور پالیسی کے تحت فرار ہوجاتے ہیں تو دشمن ذہنی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ ہر وقت اسی خوف کے سایہ میں رہتاہے ۔اور وہ کبھی اپنی کیمپوں اور مورچوں سے باہر نہیں نکل پاتا بلکہ ہمیشہ چھپ کر اپنی حفاظتی پورزیشن میں رہتا ہے اور یہی سوچتا رہتا ہے کہکئیں  سے حملہ ہوگا ۔اور بلوچ تنظیموں نے پہلے سے دشمن کے مورال کو ختم کیا ہے، اب صرف اس کو کیمپوں کے اندر گھس کر اس کو باہر نکالنا بچا ہے ۔

بی ایل ایف اور نفساتی جنگ :

بی ایل ایف نے اپنے آپ کو صرف زمینی کارروائیوں تک محدود نہیں رکھی بلکہ بلکہ وہ نفسیاتی، جغرافیائی اور سیاسی سطح پر بھی منظم حملہ کرتا رہا ہے۔ اسکی ایک مثال 2004 کی گوادر چائنیز انجینئرز پر حملہ تھا جہاں بی ایل ایف نے اپنی وجود میں آتے ہی دشمن کو کاری ضرب لگائی ۔ استحصالی منصوبے ہمیشہ بی ایل ایف کی نشانہ پر رہے ہیں اور جب 2004 میں چینیوں پر حملہ ہوا تو کئی سال تک گوادر میں پورٹ کے کام کو روک دیا گیاتھا اور پاکستان کہ ساتھ ساتھ چین بھی خوفزدہ رہا ۔ اس کو اپنے سرمایہ ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہوا جو بلوچ قومی تحریک اور بی ایل ایف کیلئے بہت بڑی کامیاب ثابت ہوئی ۔

اسی طرح نوکنڈی میں ہوئے حملہ زمینی نتائج سے زیادہ گہرا نفسیاتی وزن رکھتا ہے۔ کیونکہ ایسے حساس علاقے میں کارروائی کا مقصد بظاہر یہ پیغام دینا تھا کہ سخت ترین سیکیورٹی حصار بھی ناقابلِ تسخیر نہیں اور آنے والے دنوں میں بلوچ مسلح تنظیموں کی بڑھتی آپریشنل صلاحیتوں کے سامنے ریاستی منصوبے اور بین الاقوامی مفادات والے علاقے بھی محفوظ تصور نہیں ہونگے ۔

نوکنڈی کا انتخاب خود ایک سیاسی و عسکری پیغام ہے کہ ریکوڈک اور سیندک سمیت دیگر منصوبوں سے وابستہ غیر ملکی عملے یہ بات بخوبی سمجھیں کہ بلوچستان میں بلوچوں کی مرضی کے خلاف کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوسکتا ۔اگر کوئی غیر ملکی کمپنی پاکستان کے ساتھ بلوچ قوم کے استحصال میں شریک ہوگا تو آنے والے وقتوں میں بھی ایسی نوعیت کے حملوں کا خدشہ مذید بڑھ جائے گا۔

دنیا کی کوئی بھی سرمایہ دار کمپنی یا ممالک کو اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ بلوچستان میں ایک قوم رہتی ہے اور اس کی مرضی و منشاء کے خلاف پاکستان کے ساتھ استحصالی منصوبوں پر کام کرنے والا کوئی محفوظ نہیں ہوسکتا۔

***

Share This Article