بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے تنظیم کے 58ویں یومِ تاسیس کے موقع پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ بی ایس او نصف صدی سے زائد عرصے سے بلوچ نوجوانوں کی فکری آزادی، سماجی انصاف، علمی بیداری اور جمہوری جدوجہد کی علمی و سیاسی روایت کو آگے بڑھا رہی ہے۔ علم، شعور اور اسٹوڈنٹس پاور پر یقین رکھنے والی یہ تاریخی تنظیم ہر دور میں فکری مزاحمت، قربانی اور اجتماعی وقار کا استعارہ بنی رہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بی ایس او کی سیاست کا مرکز ہمیشہ تعلیم، کیمپسز کی آزادی، طلبہ یونین کی بحالی، خواتین طلبہ کی بھرپور شمولیت اور بلوچستان کے نوجوانوں کے بہتر مستقبل کی جدوجہد رہی ہے۔ آج جب نوجوان مختلف سیاسی، سماجی اور معاشی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں تو ایسے میں بی ایس او کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم اور ناگزیر ہو چکا ہے۔
مزید کہا گیا کہ تنظیم اپنے تمام یونٹس، کیڈر اور ہمدردوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے مشکل حالات، دباؤ اور رکاوٹوں کے باوجود تنظیمی ڈسپلن، فکری مشن اور اصولی موقف کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ اس موقع پر سابق رہنماؤں، شہداء اور ان ساتھیوں کو بھی یاد کیا گیا جنہوں نے علمی، فکری اور تنظیمی سرگرمیوں کے تسلسل کے لیے گراں قدر قربانیاں دیں۔
ترجمان نے کہا کہ باشعور نوجوان کسی بھی معاشرے کی اصل قوت ہوتے ہیں اور بی ایس او اسی شعور کو مضبوط بنانے کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہے۔ 58ویں یومِ تاسیس کے موقع پر تنظیم نوجوانوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ علمی و فکری سرگرمیوں، تنظیمی ڈھانچے اور اجتماعی شعور کو مزید مضبوط کریں تاکہ بلوچستان ایک باوقار، باخبر اور بااختیار معاشرے کی طرف آگے بڑھ سکے۔
آخر میں ترجمان نے کہا کہ بی ایس او اپنی تاریخی وراثت اور اصولی سیاست کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔ تاریخ یہی ثابت کرتی ہے کہ قومیں جبر اور پابندیوں سے نہیں بلکہ تعلیم، شعور اور اجتماعی بیداری سے ترقی کرتی ہیں اور بی ایس او اسی راستے کی مسافر ہے۔