جب تک سعید بلوچ کو بازیاب نہیں کیا جائےگا قائد اعظم یونیورسٹی بند رہے گی، بلوچ طلبا کی پریس کانفرنس

ایڈمن
ایڈمن
10 Min Read

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آبادکے رہنمائوں نے سعید بلوچ کی جبری گمشدگی ے خلاف قائد اعظم یونیورسٹی میں دوبارہ اپنا احتجاجی کیمپ قائم کرکے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جب تک سعید بلوچ کو بازیاب نہیں کیا جائے گا قائد اعظم یونیورسٹی بند رہیگا جس کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی کی خود کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ڈی ایس ایس ڈیپارٹمنٹ اور اس کے فیکلٹی ممبرز پر عائد ہوگی جو سعید بلوچ کی جبری گمشدگی میں ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سعید بلوچ کی جبری گمشدگی کے سلسلہ میں ہم نے ستمبر 29 سے لیکر 5 اکتوبر تک قائد اعظم یونیورسٹی کےاندر کیمپ لگا کر بیٹھے رہے لیکن قائد اعظم یونیورسٹی کے انتظامیہ سے ھمارے ملاقات ھوئی جس میں ہمیں یاد دہانی کرائی گئی کہ قانونی معاونت فراہم کرنے میں یونیورسٹی ھمارے ساتھ ھر ممکن تعاون کریگی، جس کی نتیجہ میں ھم نے احتجاجی کیمپ ختم کرنے کا فیصلہ کیا مگر یہ ایک جھوٹی تسلی کے سوا اور کچھ نہیں تھا لہذا اس جھوٹی تسلی نے آج پھر ہمیں قائداعظیم یونیورسٹی میں احتجاج کرنے پر مجبور کردیا ھم قائداعظیم یونیورسٹی کی انتظامیہ کو بتانا چاہتے کہ جب تک سعید بلوچ کی کیس میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ھوگی ھم اپنی موقف پر ڈٹے رہیں گے ۔

انہوںنے کہا کہ آپ سب کے علم میں ہے کہ اسلام آباد میں بلوچ طلباء کی ہراسمنٹ اور پروفائلنگ اب معمول کی بات بن چکی ہے،ریاستی ادارے مختلف ہتھکنڈوں کو بروئے کار لا کر بلوچ طلباء کو ہراس کرکے انہیں نفسیاتی مریض بناچکے ہیں ریاستی اداروں کی یہ رویہ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ چاہتے ہی نہیں کہ بلوچ پڑھ لکھ کر تعلیم کی میدان میں کامیابی سے ہمکنار ہو ۔اسلام آباد اور اس سے متصل علاقوں میں جتنے بھی بلوچ تعلیم جیسے زیور سے اراستہ ہونے کی جستجو رکھتے ہیں۔ انہیں ہر جگہ ہراسمنٹ اور پروفائلنگ جیسے غیرفطری رویوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔یہ بات کسی زی و روح سے ڈکھی چھپی نہیں ہے کہ ریاستی ادارے ہر روز کسی بلوچ طالب علم کو اِنہی طریقوں سے ڈرا دھمکاکر ان کے ساتھ ناروا سلوک کررہیں ہے،یہ راولپنڈی میں مقیم ایرڈ ایگریکلچرل یونیورسٹی کے بلوچ طلبا کے ساتھ پولیس کی بیس میں خفیہ اداروں کے لوگوں کا رویہ ہو،جہاں رات کے چار بجے بلاوجہ بغیر اجازت کے بلوچ طلبا کی کمروں میں آکر اُن سے عجیب سوالات کا سلسلہ ہو یا پنجاب کے شہر سرگودہ میں بلوچ طلبا کی فلیٹوں پر اچانک چھاپہ مار کر انکو تنگ کرنے کے ناخوشگوار واقعات ہو،نمل یونیورسٹی کی دس طلباء کو جبری گمشدہ کرکے پھر دھمکی دے کر چند دن بعد رہا کرنے کا واقعہ ہو یا اسلامیہ یونیورسٹی بہالپور میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کو بندوق کے نوک پر لاپتہ کرنے کی کوشش ہو،وفاق و پنجاب سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ریاستی ادروں کا رویہ بلوچ طلبا کے ساتھ یہی ہے۔

طلبا رہنمائوں کا کہنا تھا کہ آج سے چند ہفتے پہلے بلوچستان کا وزیر اعلٰی سرفراز بگٹی نے اپنے ایک انٹرویو میں چند بےبنیاد الزام لگاکربلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کو جسٹیفائی کرتے نظر اتا ہے،بقول سرفراز کہ خفیہ ادارے دانستہ طور پر بلوچ طلباء کی پروفائلنگ کرتے ہیں جسکا ثبوت ان دی ریکارڈ مختلف ذرائع ابلاغ پر موجود ہے اس سے یہ عیان ھوتا ہے کہ ایک صوبے کا چیف ایگزیکٹو اس بات کا اعتراف کررہا ہے کہ دارلحکومت اسلام آباد جیسے جگہ میں جبری گمشدگی کا مسلئہ صرف فیروز اور سعید بلوچ تک محدود نہیں رہیگا بلکہ ریاست کا یہ غیر انسانی عمل فاق و پنجاب سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کیلئے سنگین مسلئہ رہیگا،سرفراز کے اس بیان سے آخز کیا جاسکتا ہے کہ وفاق و پنجاب میں جتنے بھی بلوچ تعلیم سے وابستہ ہیں ان تمام طلباء کی زندگی خطرے سے خالی نہیں ہیں اور اس کا تمام تر زمہ داری خفیہ اداروں اور یونیورسٹی انظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مزید یہ بات ذہن نشین ہو کہ قائد اعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے بلوچ اسٹوڈنٹس کو فیکلٹی ممبرز کی طرف سے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہورہے ہیں کہ اگر کوئی بلوچ طالب علم لاپتہ سعید بلوچ کی بازیابی کیلئے آواز اٹھائیگا تو اس کو ڈگری حاصل کرنے میں دشواری ھوگی جوکہ یونیورسٹی انتظامیہ کی بھیانک رویہ کی عکاسی کرتی ہے،قائد اعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ کی اس رویے سے نا صرف بلوچ طلباء کے تعلیمی سفر میں رکاوٹیں اور پریشانیاں پیدا ہونگے بلکہ جامعہ کی اس سلوک سے طلباء تعلیمی سرگرمیوں میں صحیح طریقے سے حصہ لینے سے قاصر رہینگے۔

پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں واقع کوئی بھی تعلیمی ادارہ جہاں بلوچ تعلیم حاصل کررہے ہیں ان سب کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے۔ریاست کی 1973 کا آئین آرٹیکل 25A کے تحت ہر شہری کو تعلیم مہیا کرنا ریاست پر فرض ہے مگر بد قسمتی سے ریاست بلوچ کو تعلیم دینے کے بجائے اسے کتابوں کی آغوش سےاٹھاکر زندان کے اندھیرے ٹارچرسیلوں میں قید کرتی ہے اس کی زندہ مثال 11مئی 2022 کو ایرڈ یونیورسٹی کے احاطے سے بی ایڈ کا طالب علم فیروز بلوچ کا جبری گمشدگی ہو یا پانچ ماہ قبل 8جولائی 2025 کو قائداعظم یونیورسٹی کے ڈیفینس اینڈ اسٹریٹیجک ڈیپارمنٹ کے پانچویں سیمسٹر کے طالب علم سعیداللہ بلوچ کا اسلام آباد ٹول پلازے سے خفیہ اداروں کی جانب سے جبری گمشدگی ہو۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد بحیثیت ادارہ بلوچ طلبا کے ساتھ ریاست کے اس رویے کا بھرپور مذمت کرتی ہے۔سعید بلوچ سمیت تمام بلوچ طلباء کی ہراسمنٹ و پروفائلنگ کو سامنے رکھ کر قائد اعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ سے چند مطالبات کرتی ہے:

1۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ بی ایس سی اسلام آباد کے ممبر سعید بلوچ کے کیس کی تحقیقات صاف شفاف انداز میں کرے ، جوعنا صر جیسے ڈی ایس ایس ڈیپارٹمنٹ کے فیکلٹی ممبر نوید قیصر جن کا ہاتھ براہ راست سعید بلوچ کی جبری گمشدگی میں شامل ہے اس کے خلاف جلد ازجلد قانونی کاروائی کی جائے۔

2۔قائد اعظم یونیورسٹی میں موجود بلوچ طلباء سے ڈائیلاگ کرے اور جامعہ کی انتظامیہ کی جانب سے سعید بلوچ کی کیس کے متعلق جو بھی پیش رفت ہوئی ہے اس کے بارے میں انھیں آگاہی فراہم کرے۔

3۔جامعہ قائد اعظم کی انتظامیہ کی کوئی ذمہ دار فیکلٹی ممبر کو یکُم دسمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ بھیجا جائے جو سعید بلوچ کی کیس کو مثبت انداز میں پیش کرکے اس کے بازیابی کےلئے پیش رفت کرے۔

4۔یونیورسٹی انتظامیہ ان افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے مدد کرے اور ان کا شناخت یعنی وہ کون لوگ تھے یہ تلاش کرے،جن کی وجہ سے سعید بلوچ پانچ ماہ سے جبری گمشدگی کا شکار ہے۔

5۔جامعہ قائد اعظم میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کو ڈیپارٹمنٹ سے پیپر میں فیل کرنے کے دھمکی والے فون کالز کا سلسلہ بند کیا جائے۔

6۔بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد جو اپنا آئینی حق تعلیم اور لاپتہ سعید بلوچ کی بازیابی کیلئے احتجاجی کیمپ کا نعقاد کی ہےوہ یونیورسٹی کی انتظامیہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ تحریری طور پر بلوچ طلباء کو یہ یقین دہانی کرایا جائے کہ سعید بلوچ کی بازیابی کیلئےانتظامیہ عملی اقدامات اٹھائےگا اور قائد اعظم یونیورسٹی سمیت دیگر اداروں میں موجود بلوچ طلباء کو ہراسمنٹ کا سامنا نہیں ہوگا اور انہیں مختلف طریقوں سے ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ ختم کیاجائیگا۔

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد اس پریس کانفرنس کی توسط سے یہ بات واضح کرنا چاہتی ہے کہ آج سے ہم بلوچ طلبا سخت اقدامات اٹھا کر غیر معینہ مدت تک قائد اعظم یونیورسٹی کو بند کردینگے اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کے سامنے دوٹوک الفاظ میں یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں ہیں کہ جب تک ہمارا دوست سعید بلوچ کیلئے جامعہ قائداعظم کی انتظامیہ کی جانب سے عملی اقدامات نہیں اٹھائے جائینگے اور درج بالا مطالبات کو پورا نہیں کیا جائے گا اس وقت تک قائد اعظم یونیورسٹی بند رہیگا جس کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی کی خود کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ڈی ایس ایس ڈیپارٹمنٹ اور اس کے فیکلٹی ممبرز پر عائد ہوگی جو سعید بلوچ کی جبری گمشدگی میں ملوث ہیں۔

Share This Article