مائیک پومپیو اور طالبان رہنما کی ویڈیو کانفرنس میں قیدیوں کی رہائی پر تبادلہ خیال

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر نے پیر کی شام امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے گفتگو کی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماو¿ں نے افغان امن اور قیدیوں کی رہائی پر تبادلہ خیال کیا۔

دوسری جانب مشرقی افغانستان کے شہر جلال آباد میں جیل میں حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنطیم دولت اسلامیہ نے قبول کر لی ہے۔

بی بی سی پشتو سروس کے مطابق طالبان کے دوحہ دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے اپنے ٹویٹر اکاو¿نٹ پر لکھا کہ ’آج شام ، امارت اسلامیہ کے سیاسی نائب اور سیاسی دفتر کے سربراہ جناب ملابرادر اخوند اور ان کے وفد نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ امریکی سکریٹری خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقوں نے امارت اسلامیہ کے باقی قیدیوں کی رہائی کو مذاکرات کے آغاز کے لیے اہم سمجھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے بھی عید الاضحی کے موقع پر امارت اسلامیہ کے اعلان کردہ جنگ بندی کا خیرمقدم کیا۔‘

طالبان باقی قیدیوں کو رہا کرنے کی بات کر رہے ہیں کیونکہ حکومت نے ان قیدیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے آئندہ جمعہ کو مشاورتی لویہ جرگہ طلب کیا ہے۔

افغان حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان کی ’پانچ قیدیوں کی فہرست‘ میں پانچ افراد شامل ہیں جو سنگین جرائم میں ملوث ہیں، اور اس وجہ سے انہیں اب رہا نہیں کیا جائے گا۔

افغان صدر محمد اشرف غنی نے عید الاضحی کے موقع پر کہا تھا کہ بطور صدر ان افراد کو معاف کرنے یا ان کو رہا کرنے کا اختیار نہیں ہے اور اسی وجہ سے اس معاملے کو مشاورتی لویہ جرگہ کے حوالے کیا گیا۔

طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مائیک پومپیو سے بقیہ طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کے بارے میں بات کی ہے۔

طالبان کے ایک اور ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کو ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان نے پچھلے تین دن میں کہیں بھی جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں کی اور صرف افغان سکیورٹی فورسز کی چوکیوں کی تعمیر کو روکا تھا۔

اگرچہ عید کے پہلے دو دن نسبتاً پر امن تھے ، تاہم جلال آباد کی صوبائی جیل پر حملے کے تیسرے دن چار حملہ آوروں کے علاوہ چار افراد ہلاک ہوگئے۔

تاہم ، داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ لیکن افغان صدر محمد اشرف غنی کے ترجمان، صدیق صدیقی نے پیر کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ سکیورٹی ایجنسیوں کو بعد میں معلوم ہوجائے گا کہ حملے کے پیچھے کون تھا۔

فورسز اور حملہ آوروں میں جھڑپ اتوار کی شام اس وقت شروع ہوئی جب عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے کار کو بم دھماکے میں اڑا دیا اور صوبائی جیل پر حملہ کیا

مقامی عہدیدار کہتے ہیں۔ حملے کے دوران فرار ہونے والے متعدد قیدیوں کو بازیاب کرا لیا گیا ہے ، لیکن ننگرہار کی صوبائی کونسل کے ایک ممبر کا کہنا ہے کہ جیل کے بہت سے سیاسی قیدی فرار ہوگئے ہیں۔

صوبائی ذرائع نے بی بی سشی پشتو سروس کو بتایا کہ حملے کے بعد سینکڑوں زیرحراست افراد کا ابھی پتہ نہیں چل سکا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فرار ہوگئے ہیں۔

ننگرہار کی صوبائی کونسل کے ایک ممبر، ناصر کاموال نے کہا کہ ان کی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر مفرور سیاسی قیدی تھے۔

Share This Article
Leave a Comment