انڈیا : لال قلعہ دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی کا مالک گرفتار

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ کئی روز سے جاری ہے۔

منگل کی صبح بھی پولیس نے دو درجن سے زیادہ مقامات پر چھاپے مارے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ گھروں پر چھاپوں اور تلاشی کی کارروائی عدالت سے باضابطہ وارنٹ کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔

اس دوران پیر کے روز نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) نے عامر رشید علی نامی پانپور کے ایک کشمیری نوجوان کو دلی سے گرفتار کرلیا۔ ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ عامر نے مبینہ خودکش بمبار ڈاکٹر عمر نبی کے لئے اپنے نام سے گاڑی خریدی تھی اور عمر نے اسی گاڑی میں بارود بھر کے اسے 10 نومبر کی شام لال قلعہ علاقے میں اُڑا دیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ عامر نے ڈاکٹر عمر نبی کی تکنیکی مدد بھی کی تھی۔ انھیں منگل کے روز نئی دلی کے پٹیالیہ ہاوس کورٹ کمپلیکس میں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جس کے بعد عدالت نے عامر کو 10 روزہ ’انٹروگیشن ریمانڈ‘ پر این آئی اے کی تحویل میں رہنے کا حکم سنایا۔

واضح رہے کہ لال قلعہ کار بم دھماکے میں 10 افراد ہلاک اور درجنوں دیگر زخمی ہوگئے تھے، جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔ اس دھماکے کو ابتدائی طور پر ’خودکش حملہ‘ قرار نہیں دیا گیا تھا، لیکن چند روز بعد جب این آئی اے نے واقعہ کی تحقیقات شروع کی تھی تو ایجنسی نے اس واقعے کو باقاعدہ ’دہشت گرد واقعہ‘ قرار دے کر کہا تھا کہ ’خودکُش بمبار ڈاکٹر عمر نبی نے ہی بارود سے بھری ہیونڈائی کار کو اُڑایا تھا۔‘

ڈاکٹر عمر انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ کے رہنے والے ہیں۔ ان کے والدین سے ڈی این اے نمونے حاصل کرکے این آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر عمر ہی ’خودکُش بمبار‘ تھے۔

ڈاکٹر عمر کے دو کشمیری ساتھی ڈاکٹر عدیل راتھر اور ڈاکٹر مزمل گنائی کے علاوہ انڈین شہری ڈاکٹر شاہین شاہد انصاری اُن متعدد افراد میں شامل ہیں جنھیں لال قلعہ کار بم دھماکے کی تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔

ڈاکٹر شاہین فریدآباد کی الفلاح میڈیکل یونیورسٹی میں ڈاکٹر عمر کے ساتھ پڑھاتی تھیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سبھی ڈاکٹر ہریانہ کے فریدآباد قصبے میں واقع الفلاح میڈیکل یونیورسٹی میں لچکرار تھے۔ لال قلعہ کار بم دھماکے سے کئی روز قبل کشمیر پولیس نے ہریانہ پولیس کے تعاون سے یونیورسٹی میں چھاپہ مارا تھا جس کے دوران سینکڑوں کلوگرام دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا تھا۔

یہ مواد سرینگر کے نوگام پولیس تھانے میں تھا جہاں وہ سنیچر کی شب اہلکاروں کے معائنہ کے دوران پھٹ گیا تھا۔ اس دھماکے میں ایک درزی اور دو کرائم ٹیم فوٹوگرافرز سمیت نو افراد ہلاک ہو گئے تھے اور درجنوں دیگر زخمی ہوئے تھے جبکہ پولیس سٹیشن کی عمارت بھی اس دھماکے میں پوری طرح تباہ ہوگئی تھی۔

اس دوران جموں کشمیر پولیس نے پورے خطے میں دو روزہ ریڈالرٹ جاری کردیا ہے اور ریلوے سٹیشنوں، ہوائی اڈوں اور بس اڈوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی نفری میں اضافہ کر دیا ہے۔ شاہراہوں پر بھی گاڑیوں کی تلاشی لی جارہی ہے۔

Share This Article