وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو 16 سال مکمل، خاموشی جرم ہے، مل کر جدوجہد کرنی چاہیے، پریس کانفرنس

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ پریس کانفرنس کرتے ہوئے تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ اور سیکر ٹری جنرل حوران بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف تنظیم کے قائم احتجاجی کیمپ کو آج کوئٹہ پریس کلب کے سامنے چھ ہزار دن مکمل ہو گئے ہیں۔

تنظیم کے رہنماؤں کے مطابق یہ کیمپ بلوچستان کے مختلف علاقوں سمیت کراچی اور اسلام آباد میں بھی منعقد کیا جا چکا ہے اور اسے دنیا کا طویل ترین اور پرامن احتجاجی کیمپ قرار دیا جاتا ہے جو مسلسل چھ ہزار دنوں سے جاری ہے۔

پریس کانفرنس میں موجود رہنماؤں نے کہا کہ پورے پاکستان اور دنیا میں اس کیمپ کو طویل پرامن مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

رہنماؤں نے بتایا کہ گزشتہ 16 سال کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں، کراچی اور اسلام آباد میں احتجاج اور سیمینارز منعقد کیے گئے، جبکہ کوئٹہ سے اسلام آباد تک ٹرین مارچ اور پیدل مارچ بھی کیا جا چکا ہے۔ لاپتہ افراد کے کیسز عدلیہ، کمیشن، وفاقی و صوبائی حکومتوں اور دیگر متعلقہ اداروں کے سامنے تمام ثبوتوں کے ساتھ پیش کیے جاتے رہے ہیں۔

تنظیم کے مطابق اس طویل پرامن اور آئینی جدوجہد کی پاداش میں تنظیم کے رہنماؤں کو بدترین مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ تنظیم کی چیئرپرسن سمیت جنرل سیکرٹری حوران بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر اور دیگر رہنماؤں پر بوگس اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے، انہیں گرفتار کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ علاوہ ازیں تنظیم کے اراکین کو جبری لاپتہ کیا گیا اور تنظیم کے دو ضلعی کوآرڈینیٹر ماورائے قانون قتل کیے گئے۔ رہنماؤں کے مطابق اب بھی انہیں پرامن جدوجہد سے دستبردار کرنے کے لیے مختلف ذرائع سے دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔

تنظیم کے نمائندوں نے کہا کہ ان تمام مشکلات کے باوجود وہ جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی پرامن اور آئینی جدوجہد ترک نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جدوجہد جذباتیت کے بجائے آئین کے دائرے میں رہ کر جاری رکھی جائے گی اور انہیں یقین ہے کہ یہ پرامن طویل مزاحمتی تحریک ایک دن ضرور کامیاب ہوگی۔

پریس کانفرنس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ایک غیر سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیم ہے اور اس کے سیاسی عزائم نہیں۔

تنظیم کے مطابق ان کی طویل جدوجہد کا مقصد بلوچستان اور پاکستان کو جبری گمشدگیوں سے پاک دیکھنا اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے، تاکہ کسی کے ساتھ ظلم و ناانصافی نہ ہو اور شہریوں کو فوری انصاف فراہم کیا جائے۔

تنظیم کے مطابق جب جبری لاپتہ افراد کے لواحقین تنظیم سے رابطہ کرتے ہیں تو ان کا پروفارمہ فل کیا جاتا ہے اور کیس سب سے پہلے کمیشن کو فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کیس وفاقی و صوبائی حکومتوں تک بھی پہنچایا جاتا ہے جبکہ کمیشن ایک ہفتے میں قانونی کاروائی کا آغاز کرتا ہے اور تمام متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کرتا ہے جس کی کاپی تنظیم کو بھی موصول ہوتی ہے۔ بعد ازاں تنظیم لواحقین کو قانونی تقاضوں کی آگاہی دیتی ہے اور کیس کو اجاگر کرنے کے لیے ان کے ساتھ پریس کانفرنس اور پرامن احتجاج بھی کرتی ہے۔

تنظیم کے رہنماؤں نے اپنے خطاب میں افسوس کا اظہار کیا کہ 16 سال کی پرامن جدوجہد کے باوجود پاکستان کے کسی بھی ادارے نے جبری گمشدگیوں، ماورائے قانون اقدامات کی روک تھام اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے۔

رہنماؤں کے مطابق ریاستی اداروں نے ملکی سلامتی کو جواز بنا کر ملکی قوانین میں ترامیم کیں جس سے جبری گمشدگیوں کا مسئلہ کم ہونے کے بجائے ریاستی اداروں کے ماورائے قانون اقدامات کو آئینی تحفظ مل گیا۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے قانون قتل کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے ریاست اور ریاستی اداروں کے سربراہوں سے مطالبہ کیا کہ طاقت کے استعمال سے بلوچستان کے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔

رہنماؤں کے مطابق 2000 سے اب تک ہزاروں بلوچوں کو جبری لاپتہ اور ہزاروں کو ماورائے قانون قتل کیا گیا، مگر حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوتے گئے۔ ریاستی اداروں سے اپیل کی گئی کہ بلوچستان کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے، طاقت کا استعمال بند کیا جائے، سیاسی مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کیا جائے، تمام جبری لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور جن پر الزامات ہیں انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ مزید کہا گیا کہ ماورائے قانون گرفتاریوں اور قتل کے سلسلے کو مستقل طور پر روکا جائے اور جبری گمشدگیوں کے حل کے لیے انسانی وقار اور آئینی اصولوں کے مطابق قانون سازی کی جائے۔

پریس کانفرنس کے اختتام پر رہنماؤں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ صرف بلوچ قوم نہیں بلکہ پورے انسانی معاشرے، انصاف کے نظام اور انسانی حقوق کے اداروں کے وقار کا مسئلہ ہے۔ خاموشی انسانیت کے لیے زہر قاتل ہے، اس لیے پاکستان سمیت پوری دنیا کو اس انسانی مسئلے پر آواز بلند کرنی چاہیے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا ساتھ دینا چاہیے۔

آخر میں تنظیم نے تمام لاپتہ افراد کے لواحقین سے اپیل کی کہ وہ خاموش نہ رہیں بلکہ اپنے لاپتہ پیاروں کی مکمل تفصیلات کے ساتھ آگے آئیں اور وی بی ایم پی کی پرامن جدوجہد میں بھرپور شرکت کریں تاکہ مل کر جبری گمشدگیوں، ماورائے قانون قتل کی روک تھام اور لاپتہ افراد کی بازیابی میں کردار ادا کیا جا سکے۔

Share This Article